*نور مقدم کا اصلی قاتل کون؟*
منقول
*نور مقدم کا اصلی قا تل کون؟*
ایک طرف کراچی کے کھرب پتی جعفر برادران کا نشئی لڑکا *ظاہر جعفر* اور دوسری طرف سابق سفیر کی بیٹی *نور مقدم* جو پچھلے تین سال سے آپس میں آزادانہ مل رہے تھے اور بغیر نکاح کے *میرا جسم میری مرضی کے فارمولے کے تحت* اکٹھے رہ رہے تھے۔ روزانہ رات کو اسلام آباد کے کلبوں میں پارٹیاں، منشیات اور عیاشی ان کیلئے معمول کی بات تھی، جس کا بھیانک نتیجہ 21 جولائی کی صبح چار بجے سامنے آیا، جب ظاہر جعفر کے بیڈ روم سے نور مقدم کی ت ش دد زدہ ل ا ش ملی، جس کا *سر ت ن سے ج دا* تھا۔
اس افسوسناک واقعہ پر ہر سطح پہ افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے، کیونکہ واقعی بڑا ظلم ہوا، مگر اس حقیقت پر کوئی بولنے کی زحمت نہیں کر رہا کہ یہ واقعہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ق ات ل ظاہر جعفر ایک دہریہ (ایتھیسٹ) ہے، جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس نے نور مقدم کے ساتھ تین سال تک جو ج ن س ی تعلق قائم رکھا وہ اخلاقی، معاشرتی اور تہذیبی لحاظ سے ایک جرم تھا۔ مگر یہ جرم مملکت خداداد پاکستان کے دارالحکومت میں حکومت وقت کی ناک کے نیچے سالہاسال سے پروان چڑھتا رہا، کیونکہ اسے میرا جسم میری مرضی فارمولے نے بخوبی تحفظ فراہم کر رکھا تھا۔ اور مزید نہ جانے ایسی کتنی ہی نور مقدمیں اس لبرل طبقے کی آشیرباد سے اپنے خاندان کی عزت و ناموس کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا و آخرت کو بھی تباہ کر رہی ہیں۔
ذرا سوچئے کہ اسلام کے خلاف معمولی باتوں پہ شور شرابا کرنے والی این جی اوز اس وقت کہاں ہیں؟ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور مق ت ول لڑکی کو انصاف دلانے کیلئے کوئی NGO ابھی تک حرکت میں کیوں نہیں آئی؟ آخر کیوں اس پورے بدقماش طبقے کو سانپ سونگھ گیا ہے؟ بڑے بڑے نامور دانشور کہاں سو رہے ہیں؟ انہیں اس سفاک ق ت ل کے پیچھے اصل مجرم کیوں نظر نہیں آ رہا؟ خود کو فلاسفر سمجھنے والے اس ملک کے بڑے بڑے لکھاری اس واقعہ کے اصل پشت پناہوں کو بےنقاب کرنے کیلئے کیوں اپنی تحریریں سامنے نہیں لا رہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ خاموشی کیوں ہے؟ ایسا اس لئے ہے کہ یہ واقعہ کہیں سے بھی مذہب کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے۔ ق ات ل کا مذہب سے معمولی سا بھی رشتہ ہوتا تو اخبارات اور ٹی وی چینلز پہ وہ طوفانِ بدتمیزی بپا ہوتا کہ الامان والحفیظ۔ اگر یہ واقعہ کسی طرح بھی مذہب سے جڑا ہوتا تو آج ف بک اور دیگر سوشل میڈیا پر مذہب کے خلاف ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہوچکا ہوتا۔ بیسیوں دانشور مذہبی طبقے کو لتاڑ رہے ہوتے اور سیکڑوں لبرل سوشل میڈیا پہ اسلام کے خلاف زہر اگل رہے ہوتے۔
اگر ہم اپنی اگلی نسل کو ان تباہ کن حالات سے بچانا چاہتے ہیں اور اپنی نور مقدموں کو ظاہر جعفروں جیسے سفاک درندوں کے ہاتھوں ق ت ل ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو اس اذیت ناک واقعے کے اصل محرکات پر کھل کر بات ہونی چاہئے۔ جب تک لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین ناجائز تعلقات، ڈیٹنگ کلچر، لیونگ ریلیشن شپ، گرل فرینڈ / بوائے فرینڈ کلچر، باہمی رضامندی زنا جیسی فحاشیاں موجود رہیں گی معاشرہ ایسی تباہیاں روز دیکھا کرے گا۔ ان تمام ذلالتوں پر روک لگائے بغیر معاشرے کو ایسے اندوہناک واقعات سے بچانا ممکن نہیں۔ ایسے درد ناک ق ت ل کے پس پردہ ایسی بےہودگیوں کا ہی ہاتھ ہے۔ *اس گندگی کو میرا جسم میری مرضی نے فروغ دیا ہے اور نور مقدم کا ق ات ل بھی یہی لبرل مافیا ہے۔*
منقول