تقلید کے انکار پر امام ذہبی کا اب حزم ظاہری کا رد
ابن حزم ایک پہلا نمونہ تھا جو ہر کسی کے لیے تقلیدکا انکار کرتا تھا کہ
ہر قسم کا شخص چاہے موچی ، درزی ، سبزی والا، عامی مفتی ، قاری ، ہر کوئی اجتیہاد کرے اپنے اپنے علم کے مطابق
اب یہ ایک ایسا بھونڈا قول اور نظریہ تھا جسکی کوئی لاجک نہ تھی کہ جس کے پاس جتنا بھی ہو علم ہو وہ اجتیہاد کس بنیاد پر کر سکتا ہے ؟ جبکہ اس کے پاس اجتیہاد کرنے کے لیے وہ مکمل علوم ہی نہ ہوں ۔۔۔۔
جیسا کہ امام ذھبی سیراعلام میں ابن حزم کا جب یہ قول نقل کرتے ہیں :
أنا أتبع الحق، وأجتهد، ولا أتقيد بمذهب
میں حق اور اجتیہاد کی اتباع کرتا ہوں اور مذاہب کی تقلید نہیں کرتا
اس بات کا جواب دیتے ہوئے امام ذھبیؒ فرماتے ہیں :
قلت: نعم، من بلغ رتبة الاجتهاد، وشهد له بذلك عدة من الأئمة، لم يسغ له أن يقلد، كما أن الفقيه المبتدئ والعامي الذي يحفظ القرآن أو كثيرا منه لا يسوغ له الاجتهاد أبدا، فكيف يجتهد، وما الذي يقول؟ وعلام يبني؟ وكيف يطير ولما يريش؟
میں ( الذھبیؒ) کہتا ہوں:
یہ صحیح ہے جو شخص اجتیہاد کے مرتبہ پر فائز ہو اور اسکی شہادت متعدد ائمہ کرام نے دی ہو ، اس کے لیے تو تقلید کی کنجائیش نہیں رہتی ،
مگر
مبتدی قسم کا فقیہ اور عامی درجہ کا آدمی جو قرآن یا اسکے اکثر حصہ کا تو حافظ اس کے لیے اجتیہاد کی گنجائیش نہیں ہے
وہ کیسے اجتیہاد کریگا ؟ کیا کہے گا ؟ کس چیز پر اپنے اجتیہاد کی امارت کھڑی کریگا ؟
”کیسے اڑے گا ؟ ابھی اسکے پر بھی نہیں نکلے”
[سیر اعلام النبلاء (18/191)]