أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ اَبۡرَمُوۡۤا اَمۡرًا فَاِنَّا مُبۡرِمُوۡنَ‌ۚ ۞

ترجمہ:

کیا انہوں نے کسی کام کو پکا کرلیا ہے، بیشک ہم بھی پکا کام کرنے والے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

کیا انہوں نے کسی کام کو پکا کرلیا ہے، بیشک ہم بھی پکا کام کرنے والے ہیں یا ان کا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی خفیہ باتوں اور سرگوشیوں کو نہیں سنتے، کیوں نہیں ! (ہم سن رہے ہیں) اور ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لکھ رہے ہیں آپ کہیے : اگر رحمان کا بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا آسمانوں اور زمینوں کا رب جو عرش کا رب ہے وہ ان عیوب سے پاک ہے جن کو یہ بیان کرتے ہیں آپ ان کو ان کے مشغلوں اور لغویات میں پڑے رہنے دیں، حتیٰ کہ ان کا سابقہ اس دن سے پڑجائے جس دن سے ان کو ڈرایا گیا ہے

(الزخرف : 79-83)

آپ کے خلاف سازش کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ کا انتقام لینا

اس آیت میں ” ابرموا “ کا لفظ ہے، ابرام کا معنی ہے : کسی چیز کو پکا کرنا اور مستحکم اور مضبوط بنادینا، مقاتل نے کہا : یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی تھی جب کفار مکہ نے دارالندوہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف خفیہ سازش کی تھی کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک فردمل کر اچانک سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کرکے آپ کو قتل کردے، تاکہ تمام قبائل آپ کو قتل کرنے میں مشترک ہوں اور کسی ایک قبیلہ پر الزام نہ آئے اور آپ کی دیت اور خون بہا کا مطالبہ کمزور ہوجائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم بھی پکا کام کرنے والے ہیں، یعنی ان تمام لوگوں کو چن چن کر غزوہ بدر میں قتل کرنے والے ہیں، اس آیت کی دوسری تفسیر یہ ہے : ہم نے ان کے پاس پیغام حق بھیجا لیکن انہوں نے اس کو نہیں سنایا اس کو سن کر اس سے اعراض کیا، کیونکہ انہوں نے اپنے دلوں میں بات پکی کرلی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ اس پکی بات سے ان سے اس عذاب کا خطرہ ٹل جائے گا جو عذاب کفر اور انکار کی صورت میں آخرت میں ان پر پیش آنے والا تھا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 79