اُدۡخُلُوا الۡجَنَّةَ اَنۡتُمۡ وَاَزۡوَاجُكُمۡ تُحۡبَرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 70
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اُدۡخُلُوا الۡجَنَّةَ اَنۡتُمۡ وَاَزۡوَاجُكُمۡ تُحۡبَرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
تم اور تمہاری بیویاں ہنسی خوشی جنت میں داخل ہوجائو
تفسیر:
الزخرف : ٧٠۔ ٦٩ میں فرمایا : ” تم اور تمہاری بیویاں ہنسی خوشی جنت میں داخل ہوجائو ان کے گرد سونے کی پلیٹوں اور گلاسوں کو گردش میں لایا جائے گا اور جنت میں ہر وہ چیز ہوگی جس کو ان کا دل چاہے گا اور جس سے ان کی آنکھوں کو لذت ملے گی اور تم جنت میں ہمیشہ رہوں گے “
حضرت ابن عباس نے فرمایا : ان کو عزت والے مقامات پر ٹھہرایا جائے گا، حسن نے کہا : ان کے دل خوش رہیں گے۔ قتادہ نے کہا : ان کو جسمانی لذتیں حاصل ہوں گی، مجاہد نے کہا : وہ خوش ہوں گے اور ان کی آنکھوں سے خوشی ظاہر ہوگی۔
سونے اور چاندی کے برتنوں کا حرام ہونا
جنت میں ان کو انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات پیش کیے جائیں گے۔ جنت میں سونے اور چاندی کے برتنوں کا ان احادیث میں ذکر ہے :
ابن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ مدائن میں تھے، ان کو پیاس لگی تو ایک دہقان ان کے لیے چاندی کا ایک پیالے میں پانی لے کر آیا، انہوں نے وہ پیالہ اٹھا کر پھینک دیا، پھر انہوں نے کہا کہ میں نے یہ پیالہ اس لیے اٹھا کر پھینکا ہے کہ میں نے اس کی کئی مرتبہ چاندی کے برتن استعمال کرنے سے منع کیا ہے لیکن یہ باز نہیں آیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو ریشم اور دیباج پہننے سے منع فرمایا ہے اور سونے اور چاندی کے برتنوں میں پینے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا : یہ ان کے لیے دنیا میں ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٦٣٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٦٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٣٠١)
علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ ادنیٰ درجہ کے جنتی کے پاس بھی ستر ہزار غلام، ستر ہزار سونے کے گلاس لے کر گھومیں گے اور ہر گلاس الگ الگ ذائقہ کا مشروب ہوگا اور اعلیٰ درجہ کے جنتی کے پاس سات لاکھ غلام سات لاکھ سونے کے پیالے لے کر گردش کریں گے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٠٣)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت میں جو پہلا گروہ داخل ہوگا وہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوگا، وہ اس میں تھوکیں گے نہ ناک صاف کریں گے اور نہ وہ جنت میں رفع حاجت کریں گے۔ ان کے برتن اور کنگھیاں سونے اور چاندی کے ہوں گے، ان کی انگیٹھیوں میں عود ہندی (خوشبودار لکڑی) سلگتی ہوگی، ان کا پسینہ مشک کی طرح (خوشبودار) ہوگا، ان میں ہر ایک کی دو بیویاں ہوں گی، ان کی پنڈلیوں کا مغز حسن کی وجہ سے گوشت کے اندر سے نظر آئے گا، ان میں کوئی اختلاف نہ ہوگا نہ بغض، سب کے دل ایک جیسے ہوں گے، وہ صبح اور شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٠١٨)
حضرت ام سلمہ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص چاندی کے برتن میں پیتا ہے اس کے پیٹ میں دوزخ کی آگ گڑگڑاتی رہے گی۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٥٦٣٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٦٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٤١٣)
قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ المعروف بابن العربی المالکی المتوفی ٥٤٣ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
برتنوں کے علاوہ سونے اور چاندی کی مصنوعات کے استعمال میں علماء کا اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ مردوں کے لیے سونے اور چاندی کا استعمال مطلقاً جائز نہیں ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے اور ریشم کے متعلق فرمایا : یہ دونوں میری امت کے مردوں کے لیے حرام ہیں اور عورتوں کے لیے جائز ہیں۔ مجمع الزوائد ج ٥ ص ١٤٣) اور سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے اور پینے کی ممانعت اس کے استعمال کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی متاع ہے، اس لیے ان کا استعمال مطلقاً جائز نہیں ہے، اس لیے ان کا ہر قسم کا استعمال جائز نہیں ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ چیزیں ان کے لیے دنیا میں ہیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہوں گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدی : ٥٦٣٣)
سونے اور چاندی کے ظروف آرائش اور چار انگل سونے، چاندی اور ریشم کے کام والے کپڑوں کا جواز
علامہ علاء الدین محمد بن علی بن محمد الحصکفی الحنفی المتوفی ١٠٧٧ ھ لکھتے ہیں :
” مجتبی “ میں مذکور ہے کہ مرد کے لیے جائز ہے کہ اپنے گھر کو ریشم کے ساتھ مزین کرے اور سونے اور چاندی کے برتون سے گھر کو سجائے اور اس میں تفاخر کی نیت نہ ہو اور ” شرح وہبانیہ “ میں مثقی سے منقول ہے : قمیص کا گریبان اور اس کا بٹن ریشم کا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ کپڑے کے تابع ہے اور تاتارخانیہ میں سیر کبیر سے منقول ہے کہ ریشم اور سونے کے بٹن بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسی میں مختصر الطحاوی سے منقول ہے : چاندی کے تاروں سے کپڑے پر نقش ونگار بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور سونے کے تاروں سے نقش ونگار بنانا مکروہ ہے، فقہاء نے کہا : اس میں اشکال ہے کیونکہ شریعت میں کف پر کام کرانے کی رخصت ہے اور کف پر کبھی سونے کا کام کیا جاتا ہے۔ (الدرالمختار علی ھامش الروج ٩ ص ٤٣٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)
اس کی شرح میں علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :
میں کہتا ہوں کہ اشکال کی وجہ یہ ہے کہ کپڑے پر نقش ونگار بنائے جائیں یا کپڑے کے کف پر ریشم سے کام کیا جائے وہ اس لیے جائز ہے کہ وہ قلیل اور تابع ہے اور غیر مقصود ہے اور سونا، چاندی اور ریشم حرام ہونے میں سب برابر ہیں، پس جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا جبہ پہنا ہے جس کے گریبان اور کفوں پر ریشم سے کام ہوا تھا (صحیح مسلم : لباس، رقم الحدیث : ١٠) تو پھر کفوں پر سونے اور چاندی سے کام کرانا جائز ہے، کیونکہ ان کا حکم برابر ہے اور ان میں فرق نہ ہونے کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ جو کپڑا چار انگل کی مقدار سونے کے تاروں سے بنا ہوا ہو وہ جائز ہے۔ (صحیح مسلم لباس، رقم الحدیث : ١٥) اسی طرح اتنی مقدار میں سونے اور چاندی کے پانی سے کپڑے اور برتن پر لکھنا جائز ہے۔
سونے اور چاندی کے ظروف کی تفصیل
مسئلہ : سونے چاندی کے برتن میں کھانا پینا اور ان کی پیالیوں سے تیل لگانا یا ان کے عطر دان سے عطر لگانا یا ان کی انگھیٹی سے بخور کرنا منع ہے اور یہ ممانعت مرد عورت دونوں کے لیے ہے، عورتوں کو ان کے زیور پہننے کی اجازت ہے زیور کے سوا دوسری طرح سونے، چاندی کا استعمال مردو عورت دونوں کے لیے ناجائز ہے۔ (درمختار)
مسئلہ : سونے چاند کے چمچے سے کھانا، ان کی سلائی یا سرمہ دانی سے سرمہ لگانا، ان کے آئینہ میں مونھ دیکھنا، ان کی قلم دوات سے لکھنا، ان کے لوٹے یا طشت سے وضو کرنا، یا ان کی کرسی پر بیٹھنا مرد و عورت دونوں کے لیے ممنوع ہے۔ (درمختاروالمختار)
مسئلہ : سونے چاندی کی چیزوں کے استعمال کی ممانعت اس صورت میں ہے کہ ان کو استعمال کرنا ہی مقصود ہو اور اگر یہ مقصود نہ ہو تو ممانعت نہیں، مثلاً سونے چاندی کی پلیٹ یا کٹورے میں کھانا رکھا ہوا ہے، اگر یہ کھانا اسی میں چھوڑ دیا جائے تو اضاعت مال ہے، اس کو اس میں سے نکال کر دوسرے برتن میں لے کر کھائے یا اس میں سے پانی چلو میں لے کر پیایا پیالی میں تیل تھا سر پر پیالی سے تیل نہیں ڈالا، بلکہ کسی برسن میں یا ہاتھ پر تیل اس غرض سے لیا کہ اس سے استعمال ناجائز ہے لہٰذا تیل کو اس میں سے لیے لیاجائے اور اب استعمال کیا جائے یہ جائز ہے اور اگر ہاتھ میں تیل کا لینا بغرض استعمال ہو جس طرح پیالی سے تیل لے کر سر یا ڈاڑھی میں لگاتے ہیں اس طرح کرنے سے ناجائز استعمال سے بچنا نہیں ہے کہ یہ بھی استعمال ہی ہے۔ (در مختار ددالمختار)
مسئلہ : چائے کے برتن میں سونے چاندی کے استعمال کرنا جائز ہے، اسی طرح سونے چاندی کی گھڑی ہاتھ میں باندھنا بلکہ اس میں وقت دیکھنا بھی جائز ہے کہ گھرڑی کا استعمال یہی ہے کہ اس میں وقت دیکھا جائے۔ (ردالمختار)
مسئلہ : سونے چاندی کی چیزیں محض مکان کی آرائش وزینت کے لیے ہوں مثلا قرینہ سے یہ برتن قلم ودوات لگا دیئے کہ مکان آراستہ ہوجائے اس میں حرج نہیں۔ یونہی سونے چاندی کی کرسیاں یا میز یا تخت وغیرہ سے مکان سجا رکھا ہے، ان پر بیٹھتا نہیں ہے تو حرج نہیں۔ (درمختار ردالمختار)
مسئلہ : بچوں کو بسم اللہ پڑھانے کے موقع پر چاندی کی دوات قلم تختی لا کر رکھتے ہیں، یہ چیزیں استعمال میں نہیں آتیں بلکہ پڑھانے والے کو دے دیتے ہیں، اس میں حرج نہیں۔ مسئلہ : سونے چاندی کے سوا ہر قسم کے برتن کا استعمال جائز ہے، مثلا تانبے، پیتل، سیسہ، بلور وغیرہ مگر مٹی کے برتنوں کا استعمال سب سے بہتر ہے کہ حدیث میں ہے کہ جس نے اپنے گھر کے برتن مٹی کے بنوائے فرشتے اس کی زیارت کو آئیں گے، تانبے اور پیتل کے برتنوں پر قلعی ہونی چاہیے، بغیر قلعی ان کے برتن استعمال کرنا مکروہ ہے۔ (درمختارردالمختار) مسئلہ : جس برتن میں سونے چاندی کا کام بنا ہوا ہے اس کا استعمال جائز ہے جبکہ موضع استعمال میں سونا چاندی نہ ہو مثلاً کٹورے یا گلاس میں چاندی کا کام ہو تو پانی پینے میں اس جگہ مونھ نہ لگے جہاں سونا چاندی ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ وہاں ہاتھ بھی نہ لگے اور قول اول اصح ہے۔ (درمخار ردالمختار) مسئلہ : چھڑی کو موٹھ سونے چاندی کی ہو تو اس کا استعمال ناجائز ہے کیونکہ استعمال کا طریقہ ہے کہ کہ موٹھ پر ہاتھ رکھا جاتا ہے، لہٰذا موضع استعمال میں سونا چاندی ہوئی اور اگر اس کی شام سونے چاندی کی ہو دستہ سونے چاندی کا نہ ہو تو استعمال میں حرج نہیں، کیونکہ ہاتھ رکھنے کی جگہ پر سونا چاندی نہیں ہے، اسی طرح قلم کی نب اگر سونے چاندی کی ہو تو اس سے لکھنا جائز ہے کہ وہی موضع استعمال ہے اور اگر قلم کے بالائی حصہ میں ہو تو ناجائز نہیں۔ مسئلہ : چاندی سونے کا کرسی یا تخت میں کام بنا ہوا ہے یا زمین میں کام بنا ہوا ہے تو اس پر بیٹھنا جائز ہے جبکہ سونے چاندی کی جگہ بےبچ کر بیٹھنے، محصل یہ ہے کہ جو چیز خالص سونے چاندی کی ہے اس کا استعمال مطلقاً ناجائز ہے اور اگر اس میں جگہ جگہ سونا ہے تو اگر موضع استعمال میں ہے تو ناجائز ورنہ جائز، مثلاً چاندی کی انگیٹھی سے بخور کرنا مطلقاً ناجائز ہے اگرچہ دھونی لیتے وقت اس کو ہاتھ بھی نہ لگائے، اسی طرح اگر حقہ کی فرشی چاندی کی ہے تو اس سے حقہ پینا ناجائز ہے اگرچہ یہ شخص فرشی پر ہاتھ نہ لگائے، اسی طرح حقہ کی مونھ نال سونے چاندی کی ہے تو اس سے حقہ پینا ناجائز ہے اور اگر نیچہ پر جگہ جگہ چاندی سونے کا تار ہو تو اس سے حقہ پی سکتا ہے جب کہ استعمال کی جگہ پر تار نہ ہو۔ کرسی میں استعمال کی جگہ بیٹھنے کی جگہ ہے اور اس کا تکیہ ہے جس سے پیٹھ لگاتے ہیں اور اس کے دستے ہیں جن پر ہاتھ رکھتے ہیں، تخت میں موضع استعمال بیٹھنے کی جگہ ہے اسی طرح زین میں اور رکاب بھی سونے چاندی کی ناجائز ہے اور اس میں کام بنا ہوا ہو تو موضع استعمال میں نہ ہو یہی حکم لگام اور دمچی کا ہے۔ (ہدایہ درمختار ردالمختار) مسئلہ : برتن پر سونے چاندی کا ملمع ہو تو اس کے استعمال میں حرج نہیں۔ (ہدایہ) مسئلہ : آئینہ کا حلقہ جو بوقت استعمال پکڑنے میں نہ آتا ہو اس میں سونے چاندی کا کام ہوا اس کا بھی وہی حکم ہے۔ (ہدایہ درمختار) (بہار شریعت حصہ ١٧ ص ٣٥۔ ٣٤، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)
چار انگل ریشم کے کام کے جواز کی مزید تفصیل
مسئلہ : عورتوں کور یشم پہننا جائز ہے اگرچہ خالص ریشم ہو اس میں سوت کی بالکل آمیزش نہ ہو۔ (عامہ کتب) مسئلہ : مردوں کے کپڑوں میں ریشم کی گوٹ چار انگل تک جائز ہے اس سے زیادہ ناجائز یعنی اس کی چوڑائی چار انگل تک ہو، لمبائی کا شمار نہیں، اسی طرح اگر کپڑے کا کنارہ ریشم سے بنا ہو جیسا کہ بعض عمامے یا چادروں یا تہبند کے کنارے اس طرح کے ہوتے ہیں اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر چار انگل تک کا کنارہ ہو تو جائز ہے ورنہ ناجائز۔ (درمختار ردا المختار) یعنی جب کہ اس کی کنارہ کی بناٹو بھی ریشم کی ہو اور اگر سوت کی بناوٹ ہو تو چار انگل سے زیادہ بھی جائز ہے، عمامہ یا چادر کے پلو ریشم سے بنے ہوں تو چونکہ بانا ریشم کا ہونا ناجائز ہے لہٰذا یہ پلو بھی چار انگل تک کا ہی ہونا چاہیے زیادہ نہ ہو۔ مسئلہ : آستین یا گریبان یا دامن کے کنارہ پر ریشم کا کام ہو تو وہ بھی چار انگل ہی تک ہو صدری یا جبہ کا ساز ریشم کا ہو تو چار انگل تک جائز ہے اور ریشم کی گھنڈیاں بھی جائز ہیں۔ ٹوپی کا طرہ بھی چار انگل کا جائز ہیں۔ (ردالمختار) یہ حکم اس وقت ہے کہ پان وغیرہ مغرق ہوں کہ کپڑا دکھائی نہ دے اور اگر مغرق نہ ہوں تو چار انگل سے زیادہ بھی جائز ہے۔ مسئلہ : ریشم کے کپڑے کا پیوند کسی کپڑے میں لگایا، اگر یہ پیوند چار انگل تک ہو جائز ہے اور زیادہ ہو تو ناجائز، ریشم کی روئی کی طرح کپڑے میں بھر دیا گیا مگر ابر اور استر دونوں سوتی ہوں تو اس کا پہننا جائز ہے اور اگر ابریا استر دونوں میں سے کوئی بھی ریشم ہو تو ناجائز ہے اسی طرح ٹوپی کا استر بھی ریشم کا ناجائز ہے اور ٹوپی میں ریشم اور کنارہ چار انگل تک جائز ہے۔ (ردالمختار) مسئلہ : ٹوپی میں لیس لگائی گئی یا عمامہ میں گوٹا لچکا لگایا گیا، اگر یہ چار انگل سے کم چوڑا ہے جائز ہے ورنہ نہیں۔ مسئلہ : متفرق جگہوں پر ریشم کا کام ہے تو اس کو جمع نہیں کیا جائے گا یعنی اگر ایک جگہ چار انگل سے زیادہ نہیں ہے مگر جمع کریں تو زیادہ ہوجائے گا یہ ناجائز نہیں، لہٰذا کپڑے کی بناوٹ میں جگہ جگہ ریشم کی دھاریں ہوں تو جائز ہے جب کہ ایک جگہ چار انگل سے زیادہ چوڑی کوئی دھاری نہ ہو۔ یہی حکم نقش ونکار کا ہے کہ ایک جگہ چار انگل سے زیادہ نہ ہونا چاہیے اور اگر پھول یا کام اسی طرح بنایا ہے کہ ریشم ہی ریشم نظر آتا ہے جس کو مغرق کہتے ہیں جس میں کپڑا نظرہی نہیں آتا تو اس کام کو متفرق نہیں کہا جاسکتا، اس قسم کا ریشم یازری کا کام ٹوپی یا اچکن یا صدری یا کسی کپڑے پر ہو اور چار انگل سے زائد ہو تو ناجائز ہے۔ (در مخلار ردا المختار) مسئلہ : دھاریوں کے لیے چار انگل سے زیادہ نہ ہونا اس وقت ضروری ہے کہ بانے میں دھاریاں ہوں اگر تانے میں ہوں اور بانا سوت ہو تو چار انگل سے زیادہ ہونے کی صورت میں بھی جائز ہے۔ مسئلہ : کپڑا اس طرح بنایا گیا کہ ایک تاگا سوت اور ایک ریشم مگر دیکھنے میں بالکل ریشم معلوم ہوتا ہے یعنی سوت نظر نہیں آتا یہ ناجائز ہے۔ (ردالمختار) (بہارشریعت حصہ ١٦ ص ٤٢۔ ٤١، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)
مرد کے زیور پہننے کی تفصیل
مرد کو زیور پہننا مطلقاً حرام ہے صرف چاندی کی ایک انگوٹھی جائز ہے جو وزن میں ایک مثقال یعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو اور سونے کی انگوٹھی بھی حرام ہے، تلوار کا حلیہ چاندی کا جائز ہے یعنی اس کے نیام اور قبضہ یا پر تلے میں چاندی لگائی جاسکتی ہے، بشرطیکہ وہ چاندی موضع استعمال میں نہ ہو۔ (درمختار ردالمختار)
مسئلہ : انگوٹھی صرف چاندی ہی کی پہنی جاسکتی ہے دوسری ددھات کی انگوٹھی پہننا حرام ہے، مثلاً لوہا، پیتل، تانبا، جست وغیرہا ان دھاتوں کی انگوٹھیاں مرد و عورت دونوں کے لیے ناجائز ہیں فرق اتنا ہے کہ عورت سونا بھی پہن سکتی ہے اور مرد نہیں پہن سکتا۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص حضور کی خدمت میں پیتل کی انگوٹھی پہن کر حاضر ہوا، فرمایا : کیا بات ہے کہ تم سے بت کی بو آتی ہے، انہوں نے وہ انگوٹھی پھینک دی، پھر دوسرے دن لوہے کی انگوٹھی پہن کر حاضر ہوئے، فرمایا : کیا بات ہے کہ تم پر جہنمیوں کا زیور دیکھتا ہوں، انہوں نے اس کو بھی اتار دیا اور عرض کی : یارسول اللہ ! کس چیز کی انگوٹھی بنائوں ؟ فرمایا کہ چاندی کی اور اس کو ایک مثقال پورا نہ کرنا۔ (درمختار ردالمختار)
مسئلہ : بعض علماء نے یشب اور عقیق کی انگوٹھی جائز بتائی اور بعض نے ہر قسم کے پتھر کی انگوٹھی کی اجازت دی اور بعض ان سب کی ممانعت کرتے ہیں، لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ چاندی کے سوا ہر قسم کی انگوٹھی سے بچا جائے، خصوصاً جب کہ صحاب ہدایہ جیسے جلیل القدر کا میلان ان سب کے عدم جواز کی طرف ہے۔ مسئلہ : انگوٹھی سے مراد حلقہ ہے نگینہ نہیں، نگینہ ہر قسم کے پتھر کا ہوسکتا ہے عقیق، یاقوت، زمرد، فیروزہ وغیرہ سب کا نگینہ جائز ہے۔ (درمختار)
مسئلہ : جب ان چیزوں کی انگوٹھیاں مرد و عورت دونوں کے لیے ناجائز ہیں ان کا بنانا اور بیچنا بھی ممنوع ہوا کہ یہ ناجائز کام پر اعانت ہے، ہاں بیع کی ممانعت ویسی نہیں جیسی پہننے کی ممانعت ہے۔ (درمختار ردا المختار)
مسئلہ : لوہے کی انگوٹھی پر چاندی کا خول چڑھا دیا کہ لوہا بالکل نہ دکھائی دیتا ہو، اس انگوٹھی کے پہننے کی ممانعت نہیں۔ (عالمگیری) اس سے معلوم ہوا کہ سنے کے زیوروں میں جو بہت لوگ اندر تانبے یا لوہے کی سلاخ رکھتے ہیں اور اوپر سے سونے کا پتر چڑھا دیتے ہیں اس کا پہننا جائز ہے۔ مسئلہ : انگوٹھی کے نگینہ میں سوراخ کرکے اس میں سونے کی کیل ڈال دینا جائز ہے۔ (ہدایہ) مسئلہ : انگوٹھی انہیں کے لیے مسنون ہے جن کو مہر کرنے کی حاجت ہوتی ہے جیسے سلطان، قاضی اور علماء جو فتویٰ پر مہر کرتے ہیں، ان کے سوا دوسروں کے لیے جن کو مہر کرنے کی حاجت نہ ہو مسنون نہیں مگر پہننا جائز ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ : مرد کو چاہیی کہ اگر انگوٹھی پہنے تو اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھے اور عورتیں نگینہ ہاتھ کی پشت کی طرف رکھیں کہ ان کا پہننا زینت کے لیے اور زینت اسی صورت میں زیادہ ہے کہ نگینہ باہر کی جانب رہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ : داہنے یا بائیں جس ہاتھ میں چاہیں انگوٹھی پہن سکتے ہیں اور چھنگلیا میں پہنی جائے۔ (درمختار ردالمختار)
مسئلہ : انگوٹھی پر اپنا نام کندہ کراسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام پاک بھی کندہ کراسکتا ہے مگر محمد رسول اللہ یعنی یہ عبارت کندہ نہ کرائے کہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگشتری پر تین سطروں میں کندہ تھی پہلی ستر محمد، دوسری رسول، تیسری اسم جلالت اور حضور نے فرمادیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص اپنی انگوٹھی پر یہ نقش کندہ نہ کرائے، نگینہ پر انسان یا کسی جانور کی تصویر کندہ نہ کرائے۔ (درمختار ردالمختار) مسئلہ : انگوٹھی وہی جائز ہے جو مردوں کی انگوٹھی کی طرح ہو یعنی ایک نگینہ کی ہو اور اگر اس میں کئی نگینے ہوں تو اگرچہ وہ چاندی ہی کی ہو مرد کے لیے ناجائز ہے۔ (ردالمختار) اسی طرح مردوں کے لیے ایک سے زیادہ انگوٹھی پہننا یا چھلے پہننا بھی ناجائز ہے کہ یہ انگوٹھی نہیں، عورتیں چھلے پہن سکتی ہے۔
مسئلہ : ہلتے ہوئے دانوں کو سونے کے تارے بندھونا جائز ہے اور اگر کسی کی ناک کٹ گئی ہو تو سونے کی ناک بنوا کر لگا سکتا ہے، ان دونوں صورتوں میں ضرورت کی وجہ سے سونے کو جائز کہا گیا، کیونکہ چاندی کے تار سے دانت باندھے جائیں یا چاندی کی ناک لگائی جائے تو اس میں تعفن پیدا ہوگا۔ (عالمگیری)
مسئلہ : دانت گرگیا ، ای دات کو سونے یا چاندی کے تار سے بندھواسکتا ہے۔ دسورے شخص کا دانت اپنے مونھ میں نہیں لگاسکتا۔ (عالمگیری)
مسئلہ : لڑکوں کو سنے چاندی کے زیور پہنانا حرام ہے اور جس نے پہنایا وہ گنہگار ہوگا، اسی طرح بچوں کے ہاتھ پائوں میں بلا ضرورت مہندی لگانا ناجائز ہے، عورت خود اپنے ہاتھ پائوں میں لگاسکتی ہے، مگر لڑکے کو لگائے گی تو گنہگار ہوگی۔ (درالمختار ردالمختار) (بہار شریعت حصہ ١٦ ص ٤٩۔ ٤٨، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)
القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 70
[…] تفسیر […]