أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ‌ اِنَّا كُنَّا مُنۡذِرِيۡنَ ۞

ترجمہ:

بیشک ہم نے اس کتاب کو برکت والی رات میں نازل فرمایا، بیشک ہم عذاب سے ڈرانے والے ہیں

” لیلۃ مبارکۃ “ سے لیلۃ القدر مراد ہونے کے ثبوت میں آثار

الدخان : ٢۔ ٣ میں فرمایا : ” اس واضح کتاب کی قسم ! بیشک ہم نے اس کتاب کو برکت والی رات میں نازل فرمایا، بیشک ہم عذاب سے ڈرانے والے ہیں “

اس آیت میں فرمایا ہے : ہم نے اس کتاب کو ” لیلۃ مبارکۃ “ میں نازل فرمایا ہے، لیلہ مبارکہ کا مصداق رمضان کی شب قدر ہے یا شعبان کی پندرھویں شب، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے، زیادہ تر مفسرین کا رجحان یہ ہے کہ اس سے مراد رمضان کی شب قدر ہے اور بعض کا مختار ہے کہ اس سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے، ہم دونوں تفسیروں کو تفصیل سے بیان کریں گے۔ (انشاء اللہ) پہلے ہم یہ بیان کرتے ہیں کہ اس رات سے مراد رمضان کی شب قدر ہے۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ نے اس سلسلہ میں حسب ذیل روایات بیان کی ہیں :

قتادہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں : حضرت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف رمضان کی پہلی شب میں نازل ہوئے اور تورات چھ رمضان کو نازل ہوئی اور زبور سولہ رمضان کو نازل ہوئی اور انجیل اٹھارہ رمضان کو نازل ہوئی اور قرآن مجید چوبیس رمضان کو نازل ہوا۔ نیز قتادہ نے کہا : لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٩٩٨) ابن زید نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : یہ رات لیلۃ القدر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو لوح محفوظ سے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا، پھر لیلۃ القدر کے علاوہ دوسری راتوں اور دنوں میں دوسرے انبیاء (علیہم السلام) پر نازل فرمایا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٩٩٩)

اور دوسروں نے کہا : اس سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے۔

علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے بھی ان دونوں روایتوں کا ذکر کیا ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٤٤) علامہ الحسین بن مسعود البغوی الشافعی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :

قتادہ اور ابن زید نے کہا : اس رات سے مراد لیلۃ القدر ہے، اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا، پھر بیس سال تک حضرت جبریل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کرکے قرآن نازل کرتے رہے اور دوسروں نے کہا : اس سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ١٧٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

امام عبدالرحمن بن محمد ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : لیلۃ القدر میں لوح محفوظ نقل کرکے لکھ دیا جاتا ہے کہ اس سال میں کتنا رزق دیا جائے گا، کتنے لوگ مریں گے، کتنے لوگ زندہ رہیں گے، کتنی بارشیں ہوگی، حتی کو لکھ دیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں شخص حج کرے گا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ١٠ ص ٢٢٨٧، رقم الحدیث : ١٨٥٢٧، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)

امام ابواسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی متوفی ٤٢٧ ھ لکھتے ہیں :

قتادہ ابن زید نے کہا : یہ لیلۃ القدر ہے، اللہ سبحانہ نے لیلۃ القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف قرآن مجیدکونازل فرمایا، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر راتوں اور دنوں میں قرآن مجید کو نازل فرماتا رہا اور دوسروں نے کہا : اس سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے۔ (الکشف والبیان ج ٨ ص ٣٤٨، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٢ ھ)

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :

اس رات سے مراد لیلۃ القدر ہے، عکرمہ سے روایت ہے کہ یہ شعبان کی پندرھویں شب ہے، ان کی یہ حدیث مرسل ہے، جب کہ قرآن مجید میں یہ تصریح ہے کہ شب، لیلۃ القدر ہے۔ عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک زندگی کی مدتیں منقطع ہوجاتی ہیں، حتیٰ کہ ایک شخص نکاح کرتا ہے اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا نام مردوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٤٩، دارالفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ)

” لیلۃ مبارکۃ “ سے لیلۃ القدر مراد ہونے پر دلائل

امام فخر الدین محمد عمر رازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ نے بکثرت دلائل سے ثابت کیا ہے کہ لیلہ مبارکہ رمضان کی لیلۃ القدر ہے، وہ لکھتے ہیں :

(١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : انا انزلنہ فی لیلۃ القدر (القدر :1) بیشک ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا اور یہاں فرمایا ہے : انا انزلنہ فی لیلۃ مبرکۃ۔ (الدخان :3) بیشک ہم نے قرآن کو لیلہ مبارکہ میں نازل کیا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ لیلۃ القدر اور لیلہ مبارکہ سے مراد واحد شب ہوتا کہ قرآن مجید میں تضاد اور تناقض لازم نہ آئے۔

(٢) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : شھررمضان الذی انزل فیہ القراٰن۔ (البقرہ :185) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کو نازل کیا گیا ہے۔

اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ قرآن مجید کو نازل کرنا رمضان کے مہینہ میں واقع ہوا ہے اور یہاں فرمایا ہے : ” انا الزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ “ بیشک ہم نے قرآن کو لیلہ مبارکہ میں نازل کیا ہے۔ پس ضروری ہوا کہ یہ رات بھی رمضان کے مہینہ میں واقع ہو اور اسی طرح جس شخص نے بھی کہا کہ لیلہ مبارکہ رمضان کے مہینہ میں واقع ہے، اس نے یہ کہا کہ یہ لیلہ مبارکہ ہی لیلۃ القدر ہے۔

(٣) اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کی صفت میں فرمایا :

تنزل الملئکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر سلمھی حتی مطلع الفجر (القدر :4-5)

اس رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے نازل ہوتے ہیں وہ رات سلامتی ہے، طلوع فجر ہونے تک اور سورة الدخان کی اس آیت میں فرمایا :

فیھا یفرق کل امر حکیم (الدخان :4) اس رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

اور یہ اس آیت کے مناسب ہے :

تنزل الملائکۃ والروح۔ اس رات میں فرشتے اور جبریل نازل ہوتے ہیں۔

نیز یہاں الدخان :5 میں فرمایا :

امرامن عندنا۔ ہمارے پاس ایک حکم کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

اور سورة القدر میں فرمایا :

باذن ربھم من کل امر۔ اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں۔

اور اس سورت کی آیات میں فرمایا :

امرا عن عندنا۔ ہمارے پاس سے ایک حکم کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

اس سورت میں فرمایا ہے :

رحمۃ من ربک۔ آپ کے رب کی رحمت سے۔

اور سورة القدر میں فرمایا ہے :

سلمھی حتی مطلع الفجر۔ وہ رات طلوع فجر ہونے تک سلامتی ہے۔

(٤) امام محمد بن جریر طبری نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ صحائف ابراہیم رمضان کی پہلی شب میں نازل ہوئے، تورات رمضان کی چھٹی شب میں نازل ہوئی، رمضان کی بارھویں شب میں نازل ہوئی اور انجیل رمضان کی اٹھارویں شب میں نازل ہوئی اور قرآن رمضان کی چوبیسویں شب میں نازل ہوا اور لیلۃ المبارکۃ یہی لیلہ القدر ہے۔

(٥) لیلۃ القدر کا معنی ہے : قدر والی شب اور اس کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کی قدر اور اس کا شرف اللہ کے نزدیک بہت عظیم ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی قدر اور اس کا شرف زمانہ کے اس مخصوص جز اور اس مخصوص شب کی وجہ سے نہیں ہے۔ کیونکہ زمانہ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے متصل واحد چیز ہے، اس لیے یہ نہیں ہوسکتا کہ زمانہ کے بعض اجزاء، دوسرے اجزاء کے اعتبار سے افضل ہوں۔ پس اگر زمانہ کا کوئی ایک جز دوسرے جز سے افضل ہو تو اس کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ زمانہ کے اس جز میں کوئی ایسی افضل چیز حاصل ہوتی ہے جو دوسرے جز میں حاصل نہیں ہوتی اور یہ واضح ہے کہ دین کی چیزوں کا مرتبہ دنیا کی چیزوں سے زیادہ شرف اور مرتبہ والا ہے اور دین کی چیزوں میں سب سے زیادہ مرتبہ قرآن کریم کا ہے کیونکہ وہ اللہ سبحانہ کا کلام ہے اور اسی سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ثابت ہوئی ہے اور اسی سے حق اور باطل کا فرق معلوم ہوا ہے اور اسی سے منکشف ہوا کہ اصحاب سعادات کے مراتب اصحاب شقاوات سے بہت بلند ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کا مرتبہ اور شرف ہر چیز سے بلند اور بالا ہے، سو جس رات میں قرآن مجید نازل ہوا اس رات کا مرتبہ ہر رات سے بلند اور بالا ہوگا اور جب اس پر اتفاق ہے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہے تو ہمیں یقین ہوگیا کہ قرآن مجید بھی اسی شب میں نازل ہوا ہے اور یہی لیلہ مبارکہ ہے۔

اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس سورت میں جس لیلہ مبارکہ کا ذکر ہے وہ شعبان کی پندرھویں شب ہے میں نے ان کی کوئی ایسی دلیل نہیں دیکھی جس پر اعتماد کیا جاسکے، ان لوگوں نے بعض اقوال پر قناعت کرلی ہے، اگر اس کے ثبوت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث صحیح ہے تو پھر لیلہ مبارکہ سے شعبان کی پندرھویں شب کا مراد ہونا متعین ہے اور اگر اس کے ثبوت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے تو پھر حق یہ ہے کہ اس سورت میں جس لیلہ مبارکہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ لیلۃ القدر ہی ہے نہ کہ کوئی اور شب۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٦٥٣۔ ٦٥٢، داراحیا التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

لیلہ مبارکہ سے نصف شعبان کی شب مراد ہونے کے متعلق روایات

امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

عکرمہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ یہ نصف شعبان کی شب ہے، اس میں ایک سال کے معاملات پتخہ کردیئے جاتے ہیں اور زندوں کا نام مردوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور حج کرنے والوں کا نام لکھ دیا جاتا ہے پس اس میں کوئی زیادتی ہوگی نہ کوئی کمی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٠٠٨، تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ١٠ ص ٣٢٨٧، رقم الحدیث : ١٨٥٣١، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ، کنزالعمال ج ١٢ ص ٣١٤، رقم الحدیث : ٣٥١٧٧، معالم التنزیل ج ٤ ص ٦٩٤، رقم الحدیث : ٤٢٧٨٠، شعب الایمان رقم الحدیث : ٣٨٣٩)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی لوگوں کے درمیان چل رہا ہوتا ہے، حالانکہ وہ مردوں میں اٹھایا ہوا ہوتا ہے، پھر حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تلاوت کی : انا انزلہ فی لیلۃ مبرکۃ انا کنا منذرین فیھا یفرق کل امر حکیم “ (الدخان :3-4) پھر حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے معاملات کی تقسیم کی جاتی ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٠١٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٣٣٨٨)

ابوالضحیٰ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو معاملات کے فیصلے فرماتا ہے اور لیلۃ القدر میں ان فیصلوں کو ان کے اصحاب کے سپرد کردیتا ہے۔ (معالم النزیل ج ٤ ص ١٧٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

نصف شعبان کی شب میں کثرت مغفرت سے متعلق صحاح کی احادیث

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٣٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) روایت کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گم پایا، میں باہر نکلی تو دیکھا کہ آپ بقیع کے قبرستان میں تھے، آپ نے فرمایا : کیا تم کو یہ خطرہ تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے ؟ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے یہ گمان کیا تھا کہ شاید آپ اپنی دوسری ازواج کے پاس گئے ہیں، آپ نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نصف شعبان کی شب کو آسمان دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) نازل ہوتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کے گناہ معاف کردیتا ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٧٣٩، مسند احمد ج ٦ ص ٢٣٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٨٩، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ١٩٩، جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٧٣٧، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ٢٣٤٦ )

امام محمد بن یزید قزوینی ابن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب نصف شعبان رات ہو تو اس رات میں قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ سبحانہ، اس رات میں غروب شمس سے آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے، پس فرماتا ہے : سنو ! کوئی بخشش طلب کرنیوالا ہے تو میں اس کی بخش دوں، سنو ! کوئی رزق طلب کرنے والا ہے تو میں اس کو رزق دوں، سنو ! کوئی مصیبت زدہ ہے تو میں اس کو عافیت میں رکھو، سنو کوئی، سنو کوئی (وہ یونہی فرماتا رہتا ہے) حتیٰ کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : شعب الایمان رقم الحدیث : ٣٨٣٦، جمع الوجوام رقم الحدیث : ١٧٣٥، جامع المسانید والسنن مسند علی رقم الحدیث : ١٤٠٧، اس حدیث کی سند بہت ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں معتبر ہے)

حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ سبحانہ، شعبان کی شب کو متوجہ ہوتا ہے اور تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے، ماسوا مشرک اور کینہ پرور کے۔ (مسند ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٩٠، شعب الایمان ج ٢ ص ٢١، المعجم الکبیر ج ٢٠ ص ١٠٩، حلیۃ الاولیاء ج ٥ ص ١٩١، صحیح ابن حبان ج ٧ ص ٤٧٠، اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے)

نصف شعبان کی شب میں کثرت مغفرت سے متعلق امام بیہقی کی احادیث

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابو ثعلبہ الخشنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب نصف شعبان کی شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، مومنوں کو بخش دیتا ہے اور کافروں کو مہلت دیتا ہے اور کینہ رکھنے والوں کو ان کے کینہ کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے، حتیٰ کہ وہ اپنے کینہ کو ترک کردیں۔ (شعب الایمان ج ٢ ص ٢١، مجمع الزوائدج ٨ ص ٦٥، جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٧٣٤، الترغیب للمنذری ج ٢ ص ١١٩)

حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب نصف شعبان کی شب ہوتی ہے تو ایک منادی ندا کرتا ہے کہ کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے تو میں اس کو بخش دوں، کوئی سائل ہے تو میں اس کو عطا کروں، پس جو شخص بھی سوال کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے ماسوافاحشہ رنڈی کے یا مشرک کے۔ (شعب الایمان ج ٢ ص ٢١، جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٧٣٦، کنز العمال رقم الحدیث : ٣٥١٧٨)

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب نصف شعبان کی شب ہوتی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے بستر سے نکل جاتے، پھر حضرت عائشہ (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! ہمارے بستر کی چادر ریشمی تھی نہ سوتی تھی۔ ہم نے کہا : سبحان اللہ ! پھر وہ کس چیز کی تھی ؟ آپ نے فرمایا، وہ اونٹ کے بالوں کی تھی، آپ نے فرمایا : مجھے یہ خدشہ ہوا کہ شاید آپ اپنی دوسری ازواج کے پاس چلے گئے ہیں، میں آپ کو گھر میں ڈھونڈ رہی تھی کہ میرا پیر آپ کے پیروں سے ٹکرایا، اس وقت آس سجدہ ریز تھے، اس وقت جو آپ دعا پڑھ رہے تھے میں نے اس کو یاد رکھا، وہ یہ دعا تھی : میرا جسم اور ذہن تجھے سجدہ کررہا ہے اور میرا دل تجھ پر ایمان لاچکا ہے، میں تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے بڑے بڑے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا سو تو مجھے بخش دے، بیشک تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشے گا، میں تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں اور تیرے غضب سے تیری رحمت کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں اور تجھ سے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں، میں تیری ایسی حمدوثناء میں آتا ہوں اور تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں اور تجھ سے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں، میں تیری ایسی حمدوثنا نہیں کرسکا جیسی تو خود اپنی حمدوثناء کرتا ہے، حضرت عائشہ (رض) نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر نماز پڑھتے رہے حتیٰ کہ صبح ہوگئی اور اور آپ کے مبارک پائوں سوج گئے تھے۔ میں آپ کے پیر دبارہی تھی اور میں نے کہا : آپ پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں، آپ نے اپنے آپ کو بہت تھکایا ہے، کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ سبحانہ آپ کے اگلے اور پچھلے ذنب کو معاف فرما چکا ہے، آپ نے فرمایا : کیوں نہیں، اے عائشہ (رض) ! تو کیا میں اللہ شکر گزار بندہ نہ بنوں، کیا تم جانتی ہو کہ اس رات میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے کہا : یارسول اللہ ! اس رات میں کیا ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس رات میں اس سال اولاد آدم سے ہر پیدا ہونے والے کا نام لکھ دیا جاتا ہے اور اس سال اولاد آدم سے ہر مرنے والے کا نام لکھ دیا جائا ہے اور اس رات میں لوگوں کے اعمال اوپر لے جائے جاتے ہیں اور اس سال ان کا رزق نازل کیا جاتا ہے، میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! کیا کوئی شخص بھی اللہ سبحانہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : کوئی شخص بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ بھی نہیں ؟ آپ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر تین مرتبہ فرمایا : میں بھی نہیں، الایہ کہ اللہ سبحانہ، مجھے اپنی رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔ (فضائل الاوقات رقم الحدیث : ٢٦، الدرالمنثور ج ٧ ص ٣٥٠۔ ٣٤٩ )

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عائشہ (رض) نے کہ نصف شعبان کی شب کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے حجرے میں تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آکر میرے بستر میں داخل ہوگئے، رات کے کسی وقت جب میں بیدار ہوئی تو میں نے آپ کو بستر میں نہیں پایا، پھر میں اٹھ کر آپ کی ازواج کے حجروں میں ڈھونڈتی پھری، آپ مجھے وہاں نہیں ملے، میں نے سوچا کہ شاید آپ اپنی باندی ماریہ قبطیہ کے پاس چلے گئے ہیں، میں پھر نکلی اور مسجد سے گزری، پھر میرا پیر آپ کے پیروں سے ٹکرایا، اس وقت آپ سجدہ میں یہ دعا کررہے تھے : میرا جسم اور ذہن تیرے لیے سجدہ ریز ہے اور میرا دل تجھ پر ایمان لاچکا ہے اور یہ میرا وہ ہاتھ ہے جس سے میں نے اپنے اوپر زیادتی کی ہے، سو اے عظیم ! عظیم گناہ کو تو عظیم رب ہی معاف کرسکتا ہے، پس تو میرے عظیم گناہ کو معاف فرمادے۔ حضرت عائشہ نے کہا : پھر آپ اپنا سر اٹھا کر یہ فرما رہے تھے : اے اللہ ! تو مجھے ایسا دل عطا فرما جو پاکباز ہو، بُرائی سے بَری ہو، نہ کافر ہو نہ شقی ہو، پھر آپ دوبارہ سجدہ میں گئے اور یہ دعا کی : میں تجھ سے اس طرح دعا کرتا ہوں جس طرح میرے بھائی دائود نے دعا کی تھی : اے میرے مالک ! میں اپنا چہرہ خاک آلود کرتا ہوں اور تمام چہروں کا حق یہی ہے کہ وہ اس کے چہرے کے سامنے خاک آلودہ ہوں، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے کہا : آپ پر میرے باپ اور ماں فدا ہوں، آپ کس وادی میں ہیں ؟ اور میں کس وادی میں تھی ؟ آپ نے فرمایا : اے حمیراء ! کیا تم جانتی ہو کہ یہ رات نصف شعبان کی رات ہے اور بیشک اس رات میں اللہ کے لیے قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگ دوزخ سے آزاد ہونے والے ہیں، میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تخصیص کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : عرب کے قبائل میں سے کسی قبیلہ کی بکریوں کے بال ان سے زیادہ نہیں ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا : چھ آدمیوں کی اس رات بھی بخشش نہیں ہوگی عادی شرابی، ماں باپ سے قطع تعلق کرنے والا، زنا پر اصرار کرنے والا، رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا، تصویر بنانے والا اور چغل خور۔ (فضائل الاوقات رقم الحدیث : ٢٧، الدرالمنثورج ٧ ص ٣٥٠ )

اما بیہقی فرماتے ہیں : جن احادیث میں وار ہے کہ اللہ سبحانہ، آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے، یہ صحیح احادیث ہیں، اسانید صحیحہ سے منقول ہیں اور ان کی تائید قرآن مجید کی اس آیت میں ہے :

وجاء ربک والملک صفا صفا (الفجر :22)

اور آپ کا رب (خود) آجائے گا اور فرشتے بھی صف بستہ ہوجائیں گے۔

اور آسمان سے نازل ہونا اور آنا اگر حرکت کے ساتھ ہو اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کی کیفیت کے ساتھ ہو تو ایسی صفات اللہ سحانہ سے منتفی ہیں بلکہ یہ اللہ عزوجل کی ایسی صفات ہیں جو مخلوق کی کسی صفت کے ساتھ مماثل اور مشابہ نہیں ہیں اور نہ ان صفات کی کوئی تاویل ہے جیسا کہ معطلہ کہتے ہیں بلکہ اللہ سبحانہ اس طرح آتا ہے جس طرح آنا اس کے شایان شان ہے اور اس طرح نزول فرماتا ہے جو اس کو زیبا ہے۔ (فضائل الاوقات ص ١٣٤۔ ١٣٣، مکتبۃ المنارۃ، مکہ مکرمہ، ١٤١٠ ھ)

نصف شعبان کی شب کے فضائل میں حافظ سیوطی کی روایات

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ متعدد کتب احادیث کے حوالوں سے بیان کرتے ہیں :

امام الدینوری نے ” المجالسۃ “ میں حضرت راشد بن سعد (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نصف شعبان کی رات کے متعلق فرمایا : اللہ تعالیٰ اس سال جس بندہ کی روح قبض کرنا چاہتا ہے ملک الموت کی اس رات اس کی روح قبض کرنے کا حکم دیتا ہے۔

امام ابن ابی الدنیا عطاء بن بسار سے روایت کرتے ہیں کہ جب نصف شعبان کی رات آتی ہے تو ملک الموت کو ایک صحیفہ دیا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے : اس صحیفہ کو پکڑلو، ایک بندہ بستر پر لیٹا ہوگا اور ازواج سے نکاح کرے گا اور گھر بنائے گا اور اس کا نام مردوں میں لکھا جاچکا ہوگا۔

خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کیا ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ چار راتوں میں خیر کو کھولتا ہے بقر عید کی رات، عیدالفطر کی رات، نصف شعبان کی رات جس میں لوگوں کی زندگیوں اور رزق کے متعلق لکھا جاتا ہے اور اس میں حج کرنے والے کا نام لکھا جاتا ہے اور عرفات کی شب میں فجر کی اذان تک۔ (الدرالمنثور ج ٧ ص ٣٤٩۔ ٣٤٨، ملتقطاً داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

کثرت مغفرت کے متعلق قرآن مجید کی آیات

متعدد احادیث میں یہ بشارت گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب میں قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ مسلمانوں کے گناہ معاف فرما دیتا ہے، ہم اس کی تائید اور توثیق میں قرآن مجید سے مغفرت کے عموم کی آیات اور دیگر احادیث ذکر کرنا چاہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

قل یعبادی الذی اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفرالذنوب جمیعا انہ ھو الغفور الرحیم

(الزمر : 53)

آپ کہیے : اے میرے وہ بندوں جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا، بیشک وہ بہت معاف کرنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے

وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا السموت والارض اعدت للمتقین (آل عمران :133)

اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے جو متقین کے لیے تیار کی گئی ہے

وان ربک الذومغفرۃ للناس علی ظلمھم وان ربک لشدید العقاب (الرعد :6)

بے شک آپ کا رب لوگوں کے ظلم کے باوجود بھی ان کی مغفرت کرنے والا ہے اور بیشک آپ کا رب سخت سزا دینے والا بھی ہے

کثرت مغفرت کے متعلق احادیث صحیحہ

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، اگر تم لوگ گناہ کرو تو اللہ تعالیٰ تم کو لے جائے گا اور ایسے لوگوں کو لائے گا جو گناہ کریں گے اور اللہ سبحانہ ‘ سے مغفرت طلب کریں گے تو اللہ عزوجل ان کو بخش دے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٤٩ )

اس حدیث سے مقود اللہ تعالیٰ کے عفو اور مغفرت کا بیان کرنا ہے کیونکہ جب مغفرت کا سبب ہوگا تو مغفرت ہوگی اور اس سے مقصود گناہ کرنے کی ترغیب دینا نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے گناہ کرنے سے منع فرمایا ہے اور انبیاء کو بھی اسی لیے بھیجا ہے، واضح رہے کہ بندہ گناہوں سے بچتا رہے اور نیکیاں کرتا رہے، پھر بھی یہ سمجھتا رہے کہ اس نے کماحقہ عبادت نہیں کی اور اللہ تعالیٰ کا پورا شکر ادا نہیں کیا اور اس پر اپنے آپ کو گناہ گار قرار دیتا رہے اور اللہ تعالیٰ نے کامل شکرادا نہ کرنے پر معافی مانگتا رہے، اور یہی اس حدیث کا مطلب ہے اور اگر وہ گناہوں سے باز رہ کر اور نیکیاں کرکے اپنے آپ کو اللہ سے استغفار کرنے سے مستغنیٰ سمجھے گا تو ایسے لوگوں کے لیے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو لے جائے گا اور ایسے لوگوں کو لائے گا جو گناہوں سے اجتناب کرنے اور نیکیاں کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے ڈریں گے اور اس سے استغفار کرتے رہیں گے جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب اور اولیاء کا ملین کا طریقہ تھا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک ایک بندہ گناہ کرتا ہے، پھر کہتا ہے کہ اے میرے رب ! میں نے گناہ کرلیا تو مجھ کو معاف کردے، تو اس کا رب فرماتا ہے : کیا میرے بندہ کو معلوم ہے کہ اس کا رب ہے جو اس کا گناہ معاف بھی کرتا ہے اور اس کے گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے۔ میں نے اپنے بندہ کو معاف کردیا، پھر جب تک اللہ چاہتا ہے وہ بندہ ٹھہرا رہتا ہے، پھر وہ کوئی گناہ کرتا ہے، پس وہ کہتا ہے : اے میرے رب ! میں نے گناہ کرلیا تو اس کو معاف کردے، اس کا رب فرماتا ہے : کیا میرے بندہ کو معلوم ہے کہ اس کا رب ہے جو اس کا گناہ معاف بھی کرتا ہے اور اس کے گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے، میں نے اپنے بندہ کو معاف کردیا، پھر جب تک اللہ چاہتا ہے وہ بندہ ٹھہرا رہتا ہے۔ پھر وہ کئی گناہ کر بیٹھتا ہے، پھر کہتا ہے : اے میرے رب ! میں نے ایک اور گناہ کرلیا ہے تو مجھے معاف فرمادے۔ پس اللہ فرماتا ہے، کیا میرے بندہ کو معلوم ہے کہ اس کا رب ہے جو اس کا گناہ معاف بھی کرتا ہے اور اس کے گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے، میں نے اپنے بندہ کو معاف کردیا، پس وہ جو چاہے کرے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥٠٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٥٨ )

یہ جو فرمایا ہے : پس وہ جو چاہے کرے اس میں اس مندہ کو گناہ کرنے کی کھلی چھٹی نہیں دی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خواہش نفس یا اغواء شیطان سے مغلوب ہو کر جب بھی گناہ کرے گا پھر اس پر نادم ہو کر توبہ کرے گا تو اس کو بخشتا رہوں گا۔

توبہ اور استغفار کے متعلق احادیث صحیحہ

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک جب بندہ گناہ کا اعتراف کرلیتا ہے، پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ سبحانہ ‘ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٤١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٧٠)

حضرت ابوبکر صدیق (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے گناہ سے توبہ کرلی اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا خواہ وہ ایک دن میں ستر بار گناہ کرے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٥٥٩، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥١٤، جامع المسانید والسنن مسند ابی بکر رقم الحدیث : ١١٦)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے توبہ کرنے کو لازم کرلیا اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے ایک راستہ نکال دیتا ہے اور ہر غم سے ایک خوشی نکال دیتا ہے اور اس کو وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہوتا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥١٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨١٩، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٣٣٨٨)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لایحتسب۔ (الطلاق :2-3)

جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اس کو ہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے ان کا گمان بھی نہیں ہوتا۔

اس حدیث میں گناہوں پر توبہ کرنے والوں کے لیے تسلی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو متقین کے مرتبہ میں رکھے گا، یا یہ بشارت ہے کہ گناہوں پر توبہ کرنے والے متقین میں شمار ہیں اور جو شخص دائما توبہ اور استغفار کرے وہ گویا متقین میں سے ہے۔

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی آدم خطاکار ہے اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو گناہوں پر توبہ کرتے ہیں۔ (مسند احمد ج ٣ ص ١٩٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٦٥١، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٢٦٢١ )

اس حدیث میں فرمایا ہے : ہر نبی آدم خطا کار ہے، اس عموم سے انبیاء (علیہم السلام) مستثنیٰ ہیں اور انبیاء (علیہم السلام) کے جن کاموں پر قرآن مجید میں ذب اور خطاء کا اطلاق کیا گیا ہے اس سے مراد بظاہر ترک اولیٰ یا خلاف اولیٰ ہے یا ان کی اجتہادی خطاء ہے، گناہ اس کو کہتے ہیں کہ قصدا ً معصیت کی جائے، انبیاء (علیہم السلام) کبھی قصد اً اللہ جل مجذہ کی نافرمانی نہیں کرتے۔

والدین اور اعزہ کے لیے استفغار کے متعلق احادیث صحیحہ

برأت کے معنی ہیں : نجات، شب برأت کا معنی ہے : گناہوں سے نجات کی رات اور گناہوں سے نجات توبہ سے ہوئی ہے، سو اس رات میں اللہ سبحانہ ‘ سے بہت زیادہ توبہ اور استغفار کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر بھی توبہ کریں اور اپنے والدین کے لیے استغفار کریں۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : وہ ایک نیک بندہ کا جنت میں درجہ بلند کرے گا، وہ بندہ کہے گا : اے میرے رب ! مجھے یہ درجہ کہاں سے ملا، اللہ سبحانہ ‘ فرمائے گا : میرے بیٹے کے تیرے لیے استغفار کرنے کی وجہ سے۔ (مسند احمد ج ٢ ص ٣٦٣، ج ٢ ص ٥٠٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٦٠، الادب المفرد للبخاری رقم الحدیث : ٣٦)

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قبر میں مردہ اس طرح ہوتا ہے جس طرح دریا میں ڈوبنے والا اپنے بچائو کے لیے فریاد کررہا ہو، وہ مردہ قبر میں باپ، ماں، بھائی یا دوست کی دعا کا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ کوئی اس کے لیے (مغفرت کی) دعا کرے، پھر جب اسے کسی کی دعا پہنچ جاتی ہے تو اس کو وہ دعا دنیا اور مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ زمین والوں کی دعائوں سے قبر والوں پر پہاڑوں کی مثل (ہدیے) داخل فرماتا ہے اور مردوں کے لیے زندوں کا ہدیہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٩٢٩٥)

حضرت عبداللہ بن بسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس شخص کو مبارک ہو جس کے نامہ اعمال میں بکثرت استغفار ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨١٨، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٣٩٣٠)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا فرماتے تھے : اے اللہ ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو نیک کام کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور جب کوئی بُرا کام کرتے ہیں تو استغفار کرتے ہیں۔ (مسند احمد ج ٦ ص ١٢٩۔ ١٤٥۔ ١٨٨۔ ٢٣٩، کنزا العمال رقم الحدیث : ٣٦٢٦۔ ٣٧٤٤، مشکوٰ ۃ رقم الحدیث : ٢٣٥٧، جمع الجومع : ٩٨٠٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٢٠ )

حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے اللہ سبحانہ ‘ سے اس حال میں ملاقات کی کہ اس نے دنیا میں کسی چیز کو اللہ کے برابر قرار نہیں دیا تھا، پھر اگر اس پر گناہوں کے پہاڑ بھی ہوں تو اللہ عزوجل ان کو معاف فرمادے گا۔ (کتاب البعث دالنشور، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٢٣٦٢ )

توبہ پر اصرار اور استغفار کو لازم رکھنے کے متعلق احادیث صحیحہ

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی مثل ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٤٥٠، شعب الایمان رقم الحدیث : ٧١٩٦، جامع المسانید مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٨٩٠)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص سوال کرے تو پورے عزم اور وثوق سے سوال کرے اور یہ ہرگز نہ کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا فرما کیونکہ کوئی شخص اللہ سبحانہ ‘ کو مجبور کرنے والا نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٣٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦١٨، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ١٨٦٠ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے : اے اللہ ! مجھے معاف کردے، اے اللہ ! مجھے معاف کردے اگر تو چاہے، اس کو چاہیے کہ پورے عزم اور زور سے سوال کرے، کیونکہ اللہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٣٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٧٩)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کسی شخص کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب وہ دعا قبول ہونے میں جلدی نہ کرے، وہ کہے : میں نے دعا کی تھی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٤٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٣٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٨٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٨٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٥٣ )

حضرت سیدنا آدم (علیہ السلام) نے بھولے سے شجر ممنوع سے کھالیا، پھر تین سو سال تک اس پر روتے رہے اور استغفار کرتے رہے، تب جاکر اللہ نے انہیں مغفرت کی نوید سنائی، حضرت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ میں مبعوث فرمانے کے لیے یہ دعا کی تھی :

ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیہم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمۃ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم (البقرہ : 129)

اے ہمارے رب ! ان میں ایک (عظیم) رسول بھیج دے جو ان پر تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا باطن صاف کرے، بیشک تو بہت غالب، بےحد حکمت والا ہے

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کو دو ہزار سے زیادہ برس گزر گئے، اس کے بعد مکہ میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی، یہ تو مقبولان بارگاہ کی دعائیں ہیں جو اس قدر طویل عرصہ گزر جانے کے بعد قبول ہوئیں تو ہمار اور آپ کی حیثیت ہے، اس لیے دعا کرنے کے فوراً بعد یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ ہماری قبول ہوجائے گی اور اگر دعا جلد قبول نہ ہو تو پھر دعا کرنے کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :

صحیح مسلم اور سنن ترمذی میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے : بندہ کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی رہتی ہے جب تک دو گناہ کی دعا نہ کرے یا قطع رحم کی دعا نہ کرے یا جب تک جلدی نہ کرے، کہا گیا کہ جلدی کا کیا معنی ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ کہے کہ میں نے دعا کی اور دعا کی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ پھر اس کو افسوس ہوا اور وہ دعا کرنا چھوڑ دے۔ اس حدیث میں دعا کے آداب کی تعلیم ہے کہ وہ بار بار طلب کرتا رہے اور مایوس نہ ہو۔ علماء نے کہا ہے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے دعا کی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی اس کے متعلق اندیشہ ہے کہ وہ دعا کے قبول ہونے سے محروم ہوجائے گا۔ (فتح الباری ج ١٢ ص ٤٢٨، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

دعا قبول نہ ہونے سے نہ اکتائے نہ مایوس ہو بلکہ مسلسل دعا کرتا رہے

ایک عارف نے کہا : میری دعا قبول ہوجائے پھر بھی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اگر میری دعا قبول نہ ہو پھر بھی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں، کسی نے کہا : اگر آپ کی دعا قبول ہو پھر تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی وجہ سمجھ آتی ہے اور اگر آپ کی دعا قبول نہ ہو تو پھر کس لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں ؟ عارف نے کہا : ہرچند کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ کا مجھ پر یہ کرم کم تو نہیں ہے کہ اس نے مجھے اپنے در کا منگتا بنایا ہوا ہے، کسی اور کے دروازہ پر گدائی کرنے کے لیے نہیں چھوڑا ہوا۔

علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں :

ایک بوڑھا آدمی ایک نوجوان کے ساتھ حج کرنے کے لیے گیا، بوڑھے نے حرام باندھ کر کہا : لبیک (میں تیری بارگا میں حاضر ہوں) غیب سے آواز آئی : لا لبیک (تیری حاضری قبول نہیں) ، نوجوان نے بوڑھے سے کہا : کیا تم یہ جواب نہیں سن رہے، بوڑھے نے کہا : میں تو ستر سال سے یہ جواب سن رہا ہوں، میں ہر بار کہتا ہوں : لبیک، جواب آتا ہے : لا لبیک، نوجوان نے کہا پھر تم کیوں آتے ہو اور سفر کی مشقت برداشت کرتے ہو اور تھکتے ہو ؟ وہ بوڑھا رو کر کہنے لگا : پھر میں کس کیدروازہ پر جائوں ؟ مجھے رد کیا جائے یا قبول کیا جائے میں نے یہیں آنا ہے، اس گھر کے سوا میری اور کہیں پناہ نہیں ہے، پھر غیب سے آواز آئی، جائو تمہاری ساری حاضریاں قبول ہوگئیں۔ (روح البیان ج ٨ ص ٤٥٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

سو شب برأت کی عبادت گزاروں او توبہ کرنے والوں کو چاہیے کہ اس رات بار بار اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتے رہیں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے رہیں، اشک ندامت بہاتے رہیں، یہ وہی رات ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساری رات سجدہ میں گزارتے تھے، اس رات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع کے قبرستان جاتے تھے اور مردوں کے لیے مغفرت طلب کرتے تھے اور امت کی خشش کے لیے دعائیں کرتے تھے، سو اس رات ہمیں بھی زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہیے۔ اپنے لیے بھی، اپنے والدین کے لیے بھی، دیگر قرابت داروں کے لیے بھی اور عامۃ المسلمین کے لیے بھی اور اس شب میں قبرستان جاکر اپنے اعزہ کی قبروں کی زیارت کرنی چاہیے اور ان کے لیے بخشش کی دعا کرنی چاہئیں۔ اس سے پہلے احادیث میں آچکا ہے کہ بعض گناہوں کی وجہ سے شب برأت میں مسلمانوں کی مغفرت نہیں ہوتی اور ان کی دعائیں قبول ہونے سے محروم رہتی ہیں، وہ گناہ یہ ہے : شرک، زنا قتل ناحق، کینہ اور بغض، والدین کی نافرانی، قطع رحم، عادۃ شراب پینا، چغلی کھانا اور تصویریں بنانا، اب ہم ان میں سے ہر گناہ کی سنگینی کو تفصیل سے بیان کررہے ہیں۔

شرک، زنا اور قتل ناحق کی وجہ سے شب برأت میں دعا کی قبولیت سے محروم ہونا

مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان گناہوں سے اجتناب کریں جن کی وجہ سے اس رات بھی بندہ کی مغفرت نہیں ہوتی حالانکہ اس رات اللہ تعالیٰ کی عطا ونوال بہت عام ہوتی ہے اور غروب آفات سے لے کر طلوع فجر تک اس کو رحمت کی برسات ہوتی رہتی ہے۔

ان گناہوں میں شرک ہے، قتل ناحق ہے اور زنا ہے اور ان تینوں گناہوں کا ذکر اس آیت میں ہے :

والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخرو لا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق ولا یزنون۔ (الفرقان :68)

اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کسی شخص کو ناحق قتل کرتے ہیں جس کے قتل کو اللہ نے حرام کردیا ہے اور نہ زنا کرتے ہیں۔

حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم کسی کو اللہ کا شریک قرار دو حالانکہ اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے، انہوں نے سوال کیا : پھر کون سا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم اپنے بیٹے کو اس خوف سے قتل کردو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے گا، انہوں نے کہا :: پھر کون سا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٧٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٦، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٣١٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٨٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٤٠، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ١٩٩)

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت رنج ہوتا ہے، حضرت اسامہ بن زید رضی عنہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت لاڈلے صحابی تھے، انہوں نے اجتہادی خطاب سے ایک مسلمان کو قتل کردیا تو آپ حضرت اسامہ پر بہت ناراض ہوئے اور آپ کو بہت رنج ہوا، حدیث میں ہے :

حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں جہینہ کے ایک قبیلہ کی طرف جہاد کے لیے روانہ کیا، ہم نے صبح کو ان پر حملہ کرکے ان کو شکست دے دی، میرا اور ایک انصاری کا ان میں سے ایک شخص سے ٹکرائو ہوا، جب ہم اس پر چھاگئے تو اس نے کہا : لا الہ الا اللہ، یہ سن کر انصاری تو رک گیا، میں نے اس کو نیزہ گھونپ کر قتل کردیا، جب ہم نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے تو آپ تک یہ خبر پہنچ چکی تھی، آپ نے فرمایا : اے اسامہ ! تم نے اس کے لا الہ الا اللہ پڑھنے کے بعد بھی اس کو قتل کردیا، میں نے عرض کیا : اس نے جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا، (مسلم کی روایت میں ہے : تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ اس نے اخلاص سے کلمہ پڑھا ہے یا جان بچانے کے لیے) آپ بار بار یوں ہی فرماتے رہے حتیٰ کو میں نے تمنا کی کہ میں آج سے پہلے اسلام نہ لایا ہوتا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٢٦٩، صحیح رقم الحدیث : ٩٦، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٦٤٣ )

اس حدیث سے انداز ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو اگر خطاء سے بھی ناحق قتل کیا جائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتنا رنج ہوتا ہے، ہمارے دور میں مسلمان محض زبان اور علاقے کے اختلاف کی وجہ سے یا مذہبی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کو ناحق قتل کرتے رہتے ہیں اور آئے دن بوری میں بند لاشیں ملتی رہتی ہیں، مساجد اور مدارس میں نمازیوں پر گھات لگا کر فائرنگ کی جاتی ہے، سوچئے ! اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس قدر رنج ہوتا ہوگا، آپ کی قبر انور میں آپ کے سامنے امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، جب آپ کے سامنے یہ قتل ناحق پیش کیے جائیں گے تو آپ کو ان پر کس قدر رنج ہوگا، مکہ کے کافر تو آپ کو زندی میں رنجیدہ کرتے تھے ہم آپ کو قبر میں بھی دکھ پہنچا رہے ہیں۔

کینہ اور بغض کی وجہ سے شب برأت میں دعا کی قبولیت سے محروم ہونا

جو گناہ شب برأت میں مغفرت سے مانع ہیں ان میں ایک گناہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے کینہ اور بعض رکھنا ہے، یعنی ایک مسلمان محض اپنی نفسانی خواہش کی بناء پر یا نفسانی عداوت کی بناء پر دوسرے مسلمان سے کینہ اور بغض رکھے۔ اس سلسلہ میں یہ احادیث ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ہر اس بندہ کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو، ماسوا اس شخص کے جو اپنے بھائی کے خلاف اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھتا ہو، پس کہا جائے گا : ان دونوں کو ٹھہرائو حتیٰ کہ یہ ایک دوسرے سے صلح کرلیں، یہ آپ نے تین دفعہ فرمایا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث، ٦٥٦٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٩١٦، مسند احمد ج ٢ ص ٣٨٩)

اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کی یہ صیت بیان کی ہے کہ وہ یہ دعا کرتے ہیں :

ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین امنوا ربنا انک رء وف رحیم۔ (الحشر :10)

اے ہمارے رب ! ہماری مغفرت فرما اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرما جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے خلاف کینہ نہ رکھنا، اے ہمارے رب ! بیشک تو بہت شفیق اور مہربان ہے۔

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے تین دن یہ فرمایا : اب تمہارے پاس اہل جنت میں سے ایک شخص آئے گا، پھر ایک شخص آیا، حضرت عبداللہ بن عمر و (رض) نے اس کو مہمان بنایا، سو وہ تین دن ان کے پاس رہا، حضرت عبداللہ بن عمرو اس کے عمل کو دیکھتے رہے، انہوں نے اپنے گھر میں اس کا کوئی خاص بڑا عمل نہیں دیکھا، انہوں نے اس شخص سے پوچھا : اس نے کہا : واقعہ اسی طرح ہے، مگر میں اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرے دل میں کسی مسلمان کے خلاف بغض یا کینہ نہیں ہوتا، حضرت عبداللہ بن عمرو نے کہا : اسی وجہ سے یہ شخص اس مرتبہ کو پہنچا ہے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ١٦٦، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٥٣٥)

حضرت عبدالہل بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں : عرض کیا گیا : یارسول اللہ ! لوگوں میں کون سب سے زیادہ افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہر وہ شخص جس کا دل محموم ہو اور اس کی زبان صادق ہو، صحابہ نے کہا : یارسول اللہ ! زبان صادق ہو اس کا معنی تو ہم جانتے ہیں اور دل کے محموم ہونے کا کیا معنی ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ وہ دل ہے جو بالکل صاف اور اجلا ہو، اس میں کوئی گناہ نہ ہو، کوئی سرکشی نہ ہو، کینہ نہ ہو اور حسد نہ ہو۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢١٦، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمروبن العاص رقم الحدیث : ٧٧٠)

بعض اسلاف نے یہ کہا ہے کہ افضل عمل یہ ہے کہ سینہ کو صاف اور سالم رکھا جائے، نفس میں سخاوت ہو اور تمام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی کی جائے۔ ان گناہوں سے بچا جائے جو بندہ کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے اس رات میں محروم رکھتے ہیں جس رات میں اس کی رحمت عام ہوتی ہے اور وہ بکثرت گناہوں کو بخش دیتا ہے۔

والدین کی نافرمانی کی وجہ سے شب برأت میں دعا کی قبولیت سے محروم ہونا

شب برأت میں مسلمان جن گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت سے محروم رہتے ہیں، ان گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے۔ ہم اس سے پہلے قرآن مجید سے والدین کی اطاعت کی اہمیت میں آیات پیش کریں گے اور اس کے بعد اس سلسلہ میں احادیث پیش کریں گے :

ووضینا الانسان بوالیدہ حملتہ امہ وھنا علی وھن وفضلہ فی عامین ان اشکرلی ولوالدیک الی المصیر۔ (لقمان :14)

اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ (نیک سلوک کی) وصیت کی، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اس کو حمل میں رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے، (ہم نے یہ وصیت کی کہ) میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو، تم سب نے میری ہی طرف لوٹنا ہے۔

ووصینا الانسان بوالدیہ احسنا حملتہ امہ کرھا ووضعتہ کرھا۔ (الاحقاف : 15)

اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے دکھ جھیل کر اس کو پیٹ میں رکھا اور دکھ برداشت کرکے اس کو جنا۔

واذاخذنا میثاق بنی اسرائیل لا تعبدون الا اللہ وبالوالدین احسانا۔ (البقرہ :83)

اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پکا وعدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا، میں نے پوچھا : پھر کون سا عمل ہے ؟ آپ نے فرمایا : ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، میں نے پوچھا : پھر کون سا عمل ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ حضرت ابن مسعود نے کہا : آپ نے مجھے یہ احکام بیان فرمائے، اگر میں اور پوچھتا تو آپ اور بتادیتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٧٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ٦١٠٠، جامع المسانید والسنن مسندابن مسعود رقم الحدیث : ٦٣٤)

اس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے بعد ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کو جہاد پر مقدم کیا ہے۔

ماں باپ کی خدمت اور ان کی اطاعت کا یہ تقاضا ہے کہ نہ براہ راست ان کی گستاخی کرے اور نہ کوئی ایسا کام کرے جو ان کی گستاخی کا موجب ہو۔

حضرت عبداللہ بن عمر و (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمام کبیرہ گناہوں میں سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے یا لعنت کرے۔ کہا گیا : یارسول اللہ ! کوئی شخص اپنے ماں باپ پر کیسے لعنت کرے گا، فرمایا، ایک شخص دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دے گا تو وہ دوسرا شخص اس کے ماں باپ کو گالی دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٧٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٠، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥٤١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٠٢، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمرو رقم الحدیث : ٤٩ )

اغراض صحیحہ ١ : جائز کاموں میں ماں باپ کی نافرمانی کرنا حرام ہے اور جائز کاموں میں ان کی اطاعت کرنا واجب ہے جب کہ ان کا حکم کسی معصیت کو مستلزم نہ ہو۔

حضرت عبداللہ بن عمروبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کیا میں جہاد کروں ؟ آپ نے پوچھا : تمہارے ماں باپ ہیں، اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : پھر تم ان کی خدمت میں جہاد کرو۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٧٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٤٩، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٥٢٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦٧١، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٠٣، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٣٢٨٤، مسند حمیدی رقم الحدیث : ٥٨٥، مسند احمد رقم الحدیث : ٦٥٤٤، عالم الکتب، مصنف ان ابی شیبہ ج ١٢ ص ٤٧٣ جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمرو رقم الحدیث : ٨١)

معاوہی بن جاہمہ السلمی بیان کرتے ہیں کہ حضرت جاہمہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گئے اور عرض کیا میں جہاد کے لیے جانا چاہتا ہوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، آپ نے پوچھا : کیا تمہاری ماں ہے ؟ ہاں ! آپ نے فرمایا : پھر اس کے ساتھ لازم رہو کیونکہ جنت اس کے پیروں کے پاس ہے، وہ پھر دوبارہ کسی اور وقت گئے، پھر سہ بارہ کسی اور وقت گئے تو آپ نے یہی جواب دیا۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٣١٠٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧٨، مسند احمد ج ٣ ص ٤٢٩ طبع قدیم، مسنداحمد رقم الحدیث : ١٥٦٢٣، عالم الکتب، سنن کبریٰ للبہیقی ج ٩ ص ٢٦، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٩٢٩٠، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٤٢٣٥، تاریخ بغداد ج ٣ ص ٣٢٤ )

ایک روایت میں ہے : جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٠٤)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت مائوں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (کنزالعمال رقم الحدیث : ٤٥٤٣٩، بہ حوالہ تاریخ بغداد)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر چڑھے، پھر فرمایا : آمین، آمین، آمین، آپ سے پوچھا گیا : یارسول اللہ ! آپ نے کس چیز پر آمین کہی ؟ آپ نے فرمایا : میرے پاس ابھی جبرائیل آئے تھے انہوں نے کہا : یامحمد ! اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے آپ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپ پر درود نہیں پڑھا، آپ کہیے : آمین تو میں نے کہا : آمین ! پھر اس نے کہا : اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس پر رمضان کا مہینہ داخل ہوا اور اس کی مغفرت کے بغیر وہ مہینہ گزر گیا، آپ کہیے : آمین تو میں نے کہا : آمین، پھر اس نے کہا : اس شخص کی ناک خاک آتود ہو جس نے اپنے ماں باپ یا دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور انہوں نے کو جنت میں داخل نہیں کیا، آپ کہیے : آمین تو میں نے کہا : آمین۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٤٥، مسند احمد ج ٢ ص ٢٥٤، مسند احمد رقم الحدیث : ٧٤٤٤، عالم الکتب، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٩٠٨، المستدرک ج ٢ ص ٥٤٩ )

سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کررہا تھا، اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، یہ تو اس کی ایک بار خندہ پیشانی کا بھی بدل نہیں ہے۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ١٨٧٢، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند حسن ہے۔ مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٣٧)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک جس وقت فوت ہوتے ہیں وہ اس وقت ان کا فرمان ہوتا ہے، پھر وہ ان کے لیے مسلسل مغفرت کی دعا کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اللہ اس کو نیکیوکار لکھ دیتا ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٩٠٢)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اس حال میں صیح کرتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار ہوتا ہے، اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور اگر وہ ایک کا اطاعت گزار ہوتا ہے تو ایک دروازہ کھلا ہوا ہوتا ہے اور جو شخص شام کے وقت اس حال میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے باپ کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہوتا ہے تو صبح کے وقت کے لیے دوزخ کے دو دروازے کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور اگر وہ ایک کا نافرمان ہوتا ہے تو ایک دروازہ کھلا ہوا ہوتا ہے۔ ایک شخص نے کہا : خواہ اس کے ماں باپ اس پر ظلم کریں، فرمایا : اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٩١٦)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو نیک شخص اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے، اللہ تعالیٰ اس کو ہر نظر کے بدلہ میں حج مبر ور عطا فرماتا ہے، صحابہ نے پوچھا، خواہ وہ ہر روز سو مرتبہ رحمت کی نظر کرے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ بہت بڑا اور بہت پاک ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٨٥٩ )

حضرت ابوبکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ماں باپ کی نافرمانی کے سو اللہ ہر گناہ میں سے جس کو چاہے گا معاف فرمادے گا اور ماں باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو زندگی میں موت سے پہلے مل جائے گی۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٨٩٠)

حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا : ایک جوان آدمی قریب المرگ ہے، اس سے کہا گیا کہ لا الہ الا اللہ پڑھو تو وہ نہیں پڑھ سکا، آپ نے فرمایا : وہ نماز پڑھتا تھا ؟ اس نے کہا : ہاں ! پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ اٹھے، آپ اس جوان کے پاس گئے اور فرمایا : کہو لا الہ الا اللہ، اس نے کہا : مجھ سے نہیں پڑھا جارہا، آپ نے اس کے متعلق پوچھا، کسی نے کہا : یہ اپنی والدہ کی نافرمانی کرتا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا اس کی والدہ زندہ ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں ! آپ نے فرمایا : اس کو بلا لائو، وہ آئی، آپ نے پوچھا : یہ تمہارا بیٹا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ! آپ نے فرمایا : یہ بتائو کہ اگر آگ جلائی جائے اور تم سے کہا جائے کہ اگر تم شفاعت کرو تو اس کو چھوڑ دیتے ہیں ورنہ اس کو آگ میں ڈال دیتے ہیں تو کیا تم اس کی شفاعت کرو گی ؟ اس نے کہا : یارسول اللہ ! اس وقت میں اس کی شفاعت کروں گی، آپ نے فرمایا : تب تم اللہ کو گواہ کرو اور مجھ کو گواہ کرکے کہو کہ تم اس سے راضی ہوگئی ہو، اس عورت نے کہا : اے اللہ ! میں تجھ کو گواہ کرتی ہوں اور تیرے رسول کو گواہ کرتی ہوں کہ میں اپنے بیٹے سے راضی ہوگئی ہوں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے لڑکے ! اب کہو : لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھدان محمدا عبدہ ورسولہ تو اس لڑکے نے کلمہ پڑھا، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کا شکر ہے جس نے اس کو میری وجہ سے آگ سے نجات دی۔ (الترغیب والترہیب للمنذری ج ٣ ص ٣٣٢، مجمع الزوائدج ٨ ص ١٤٨، شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٨٩٢)

حافظہ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند ضعیف ہے، اس کی سند میں ایک راوی ابولعدقا ہے وہ متروک الحدیث ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٤٨ )

قطع رحم کی وجہ سے شب برأت میں دعا کی قبولیت سے محروم ہونا

جن گناہوں کی وجہ سے مسلمان شب برأت میں دعا کے قبول ہونے سے محروم ہوجاتے ہیں ان گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا ہے، قطع رحم کی مذمت میں یہ آیت ہے :

ویقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل۔ (البقرہ :27)

اور اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ ان کو کاٹ دیتے ہیں۔

قطع رحم کی مذمت میں حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت جبیر بن معطم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قطع رحم کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٠٩، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٢٣٨، مسند احمد ج ٨٠، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٨٤)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس شخص کو اس سے خوشی ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی کی جائے اور اس کی عمر دراز کی جائے وہ صلہ رحم کرے (رشتہ داروں سے میل جول اور ملاپ رکھے) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدی ٥٩٨٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٦٩٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٥٧ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کرکے فارغ ہوچکاتو رحم نے کہا : یہ اس کی جگہ ہے جو قطع رحم سے تیری پناہ طلب کرے، اللہ عزوجل نے فرمایا : کیا تم اس سے راضی نہیں ہو کہ میں اس سے ملاپ رکھوں جو تم سے ملاپ رکھے اور اس سے قطع تعل کروں جو تم سے قطع تعلق کرے۔ رحم نے کہا : کیوں نہیں اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا : سو یہ تمہارے لیے ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم چاہو تو اس آیت کو پڑھو۔

فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقظعوار حامکم۔ (محمد :22)

پس تم سے بہ بعید نہیں ہے کہ اگر تم کو اقتدار حاصل ہوجائے تو تم زمین میں فساد کروگے اور رشتوں کو توڑ دو گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٨٧)

عادی شراب کا شب برأت میں دعا کی قبولیت سے محروم ہونا

جن گناہوں کی وجہ سے مسلمان شب برأت میں دعا کے قبول ہونے سے محروم ہوجاتے ہیں ان گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ دائماً شراب نوشی کرنا ہے، دائماً شراب نوشی پر حسب ذیل احادیث میں وعید ہے :

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں : ہر نشہ آور چیز خمر (شراب) ہے اور ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے اور جو دنیا میں شراب نوشی کرتے ہوئے مرگیا اور اس نے دائماً شراب نوشی سے توبہ نہیں کی وہ آخرت میں شراب نہیں پی سکے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٥٧٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٠٣، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ١٤٦٢ )

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص یمن سے آیا، اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ وہ لوگ اپنے علاقے میں جوار کی شراب پیتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا وہ شراب نشہ لاتی ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا، اللہ سبحانہ ‘ نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ جو شخص نشہ لانے والی چیز پئے گا اللہ تعالیٰ اس کو طیبۃ الخبال سے پلائے گا، صحابہ کرام نے پوچھا : یارسول اللہ ! طبیۃ الخبال کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ دوزخیوں کا پسینہ ہے یا ان کا نچڑا ہوا عرق ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٠٢، جامع المسانید والسنن مسند جابر رقم الحدیث : ١٤٦٠ )

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ سبحانہ ‘ شراب پر لعنت فرماتا ہے اور اس کے پینے والے پر اور اس کے پلانے والے پر اور اس کو فروخت کرنے والے پر اور اس کو خریدنے والے پر اور اس کے نچوڑنے والے پر اور اس کے نچڑوانے والے پر اور اس کے اٹھانے والے پر اور جس کے پاس وہ اٹھا کر لائی جائے۔ (سنن ابودئود رقم الحدیث : ٣٦٧٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٣٨٠، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ٢٩٩١)

چغلی کھانے کی وجہ سے شب برأت میں دعا کی قبولیت سے محروم ہونا

جن گناہوں کی وجہ سے مسلمان شب برأت میں دعا کے قبول ہونے سے محروم ہوجاتے ہیں ان گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ چغلی کھانا ہے۔

غیبت اور چغلی میں فرق ہے، کسی مسلمان کو رسوا کرنے کے لیے اس کے پس پشت اس کا عیب بیان کرنا غیبت ہے اور دو مسلمانوں میں فساد ڈالنے یا ان کو لڑانے کے لیے ایک کی بات دوسرے کہ پہنچانا چغلی ہے۔ چغلی پر وعید ان آیتوں میں ہے :

ویل لکل مھزۃ لمزۃ۔ (الہمزۃ :1) ہر اس شخص کے لیے ہلاکت ہو جو عیب جو اور چغل خور ہو۔ ھماز مشاء بنمہم۔ (القلم :11)

کمینہ، عیب جو، چغل خور۔ حضرت اسماء بنت یزید (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں تم کو یہ نہ بتائوں کہ تم میں سب سے اچھے کون لوگ ہیں ؟ صحابہ نے کہا : کیوں نہیں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جب یہ دکھائی دیتے ہیں تو خدا یاد آجاتا ہے، پھر فرمایا : کیا میں تم کو یہ نہ بتائوں کہ تم میں سب سے برے لوگ کون ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو چغلی کھاتے ہیں اور دوستوں میں فساد ڈالتے ہیں اور جو لوگ بےقصور ان کے خلاف غم وغصہ پیدا کرتے ہیں۔ (مسند احمد ج ٦ ص ٤٥٩ طبع قدیم، مسند احمد ج ٤٥ ص ٥٧٥، رقم الحدیث : ٢٧٥٩٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١١٩، المعجم الکبیر ج ٢٤ ص ٤٢٣، شعب الایمان رقم الحدیث : ١١١٠٨)

حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ١١١٠١)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا مکہ کے کسی باغ سے گزرے تو آپ نے دو انسانوں کی آوازیں سنیں جنہیں قبر میں عذاب ہورہا تھا، آپ نے فرمایا : انہیں کسی ایسی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا جس سے بچنا بہت دشوار ہو، پھر فرمایا : کیوں نہیں ! ان میں سے ایک پیشاب کے قطروں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢١٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٢، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ١٢٢٦ )

تصویریں بنانے کی وجہ سے شب برأت میں دعا کی قبولیت سے محروم ہونا

جن گناہوں کی وجہ سے مسلمان شب برأت میں دعا کے قبول ہونے سے محروم ہوجاتے ہیں ان میں سے ایک بڑا گناہ تصویریں بنانا ہے، تصویریں بنانے کی تحریم کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے کی تصویروں والا گدا خریدا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دیکھا تو آپ دروازے پر کھڑے رہے، میں نے آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کو پہچان لیا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا گناہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ گداکیسا ہے ؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کو اس لیے خریدا ہے کہ آپ اس پر بیٹھیں اور اس پر ٹیک لگائیں تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان تصویروں والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا : ان کو زندہ کرو جن کو تم نے پیدا کیا تھا اور فرمایا : جس گھر میں تصویر ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٦١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٠٧، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ٢٧٤٨ )

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں کو دیا جائے گا جو تصویر بنانے والے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٥٠، صحیح رقم الحدیث : ٢١٠٩، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ٢٧٣٢)

یہ حدیث ان مصوروں پر محمول ہے جو بت بناتے ہیں تاکہ ان کی عبادت کی جائے اور عام مصورین فاسق ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٩٥٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٠٧) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو میری تخلیق کی مثل تخلیق کرتا ہے، وہ ایک جوار پیدا کریں یا ایک دانہ پیدا کریں یا جَو پیدا کریں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٩٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١١١)

شب برأت میں شب بیداری کرنا اور مخصوص عبادات کرنا

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ ” قوت القلوب “ سے نقل فرماتے ہیں :

پندرہ راتوں میں شب بیداری مستحب ہے (آگے چل کر فرمایا :) ان میں میں ایک شعبان المعظم کی پندرھویں رات ہے کہ اس میں شب بیدار رہنا مستحب ہے کہ اس میں مشائخ کرام سو رکعت ہزار مرتبہ قل ھواللہ احمد کے ساتھ ادا کرتے، ہر رکعت میں دس دفعہ قل ھواللہ احد پڑھتے، اس نماز کا نام انہوں نے صلوٰۃ الخیر رکھا تھا، اس کی برکت مسلمہ تھی، اس رات (یعنی) پندرہ شعبان) میں اجتماع کرتے اور احیاناً اس نماز کو باجماعت ادا کرتے تھے۔ (ت) (فتاویٰ رضویہ ج ٧ ص ٤١٨، طبع جدید، لاہور، قوت القلوب ج ١ ص ٦٢، دارصادر، بیروت)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضافاضل بریلوی، علامہ ابن رجب حنبلی متوفی ٧٩٥ ھ کی ” لطائف المعارف “ سے نقل فرماتے ہیں : یعنی اہل شام میں ائمہ تابعین مثل خالد بن معدان و امام مکحول ولقمان بن عامر وغیرھم شب برأت کی تعظیم اور اس رات عبادت میں کوشش عظیم کرتے اور انہیں سے لوگوں نے اس کا فضل ماننا اور اس کی تعظیم کرنا اخذ کیا ہے، کوئی کہتا ہے : انہیں اسباب میں کچھ آثار اسرائیلی پہنچے تھے، خیر جب ان سے یہ امر شہروں میں پھیلا علماء اس میں مختلف ہوگئے، ایک جماعت نے اسے قبول کیا اور تعظیم شب برأت کے موافق ہوئے، ان میں سے ایک گروہ عابدین ابل بصرہ وغیرھم ہیں اور اکثر علماء نے اس کا انکار کیا، ان میں سے ہیں : امام عطاء وابن ابی ملیکہ وعید الرحمن بن زید بن اسلم فقہائے مدینہ سے ہیں اور یہ قول مالکیہ وغیرھم کا ہے کہ یہ سب نوقیدا ہے، علمائے اہل شام اس رات کی شب بیداری میں کہ کس طح کی جائے دو قول پر مختلف ہوئے، ایک قول یہ ہے کہ مسجدوں میں جماعت کے ساتھ مستحب ہے، خالد بن معدان ولقمان بن عامر وغیرہ ھم اکابر تابعین اس رات اچھے سے اچھے کپڑے پہنتے، بخور کا استعمال کرتے، سرمہ لگاتے اور شب کو مسجدوں میں قیام فرماتے، امام مجتہد اسحاق بن راہویہ نے بھی اس بارے میں ان کی موافقت فرمائی الخ، دوسرا قول یہ کہ مساجد میں اس کی جماعت مکروہ ہے اور یہ قول شام کے امام وفقیہ و عالم امام اوزاعی کا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٧ ص ٤٣٣ طبع جدید، لاہور، لطائف المعارف ج ١ ص ٢٢٧۔ ٢٢٦، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا متوفی ١٣٤٠ ھ مراتی الفلاح شرح نور الایضاح سے نقل فرماتے ہیں :

اہل حجاز میں سے اکثر علماء نے اس کا انکار کیا ہے، ان میں سے ہیں : امام عطاء وابن ابی ملیکہ وفقہاء مدینہ اور اصحاب امام مالک وغیرھم۔ یہ علماء کہتے ہیں : یہ سب نوپیدا ہے، نہ ہی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عیدین کی دونوں راتوں کی باجماعت شب بیداری منقول ہے اور نہ ہی صحابہ کرام سے مروی ہے اور علماء شام بیداری شب برأت میں کہ کس طرح کی جائے دو قول پر مختلف ہوئے، ایک قول یہ ہے کہ مسجدوں میں جماعت کے ساتھ بیداری مستحب ہے یہ قول اکابر تابعین مثل خالد بن معدان اور لقمان بن عامر کا ہے، امام مجتہد اسحاق بن راہو یہ ہے بھی اس بارے میں ان کی موافقت فرمائی ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مساجد میں اس کی جماعت مکروہ ہے، یہ قول اہل شام کے امام وفقیہ وعالم امام اوزاعی کا ہے۔ (ت) (فتاویٰ رضویہ ج ٧ ص ٤٣٤، طبع جدید، لاہور، حاشیۃ الطحطاوی علی مراتی الفلاح، ص ٢٢٠۔ ٢١٩، طبع کراچی)

شب برأت میں صلوٰۃ التسبیح اور دیگر نوافل کو باجماعت پڑھنا

برصغیر میں معمول یہ ہے کہ شب برأت میں صلوٰۃ التسبیح یا جماعت پڑھی جاتی ہے، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ نوافل کی جماعت مکروہ ہے، اعلیٰ حضرت نے باحوالہ لکھا ہے کہ یہ کراہت تحریمی نہیں ہے صرف تنزیہی ہے اور اگر دوام کے ساتھ نوافل کی جماعت نہ کرائی جائے تو پھر یہ مکروہ تنزیہی بھی نہیں ہے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فرماتے ہیں :

اس مسئلہ کی اصل یہ ہے کہ جب نوافل کی جماعت علیٰ سبیل الداعی ہو تو صدر شہید کی ” اصل “ میں ہے کہ یہ مکروہ ہے لیکن اگر مسجد کے گوشے میں بغیر اذان وتکبیر نفل کی جماعت ہوئی تو کر اہٹ نہیں اور شمس الائمہ حلوانی نے فرمایا کہ اگر امام کے علاوہ تین افراد ہوں تو بالاتفاق کراہت نہیں اور اگر مقتدی چار ہوں تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے اور اصح کراہت ہے۔ (ت) (فتاویٰ رضویہ ج ٧ ص ٤٣١ طبع جدید، خلاصۃ الفتاویٰ ج ١ ص ١٥٤، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)

پھر اظہر یہ کہ یہ کر اہٹ صرف تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ لمخالقۃ التوراث (کیونکہ یہ طریقہ توارث کے خلاف ہے۔ ) نہ تحریم یکہ گناہ ممنوع ہو، ردالمحتار میں ہے :

” حلیہ “ میں ہے کہ ظاہر یہی ہے کہ نفل میں جماعت مستحب نہیں، پھر اگر کبھی کبھی ایسا ہو تو یہ مباح ہے مکروہ نہیں اور اس میں دوام ہو تو طریقہ متوارث کے خلاف ہونے کی وجہ سے بدعت مکروہہ ہے ١ ھ کی تائید بدائع کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ جماعت، قیام رمضان کے علاوہ نوافل میں سنت نہیں ١ ھ کیونکہ نفیِ نیت کراہت کو مستلزم نہیں، پھر اگر اس میں دوام ہو تو یہ بدعت و مکروہ ہوگی، خیر رملی نے حاشیہ بحر میں کہا کہ ضیاء اور نہایہ میں کر اہٹ کی علت یہ بیان کی ہے کہ وتر من وجہ نفل ہیں اور نوافل کی جماعت مستحب نہیں کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے رمضان کے علاوہ وتر کی جماعت نہیں کرائی ١ ھ یہ گویا اس بات کی تصریح ہی ہے کہ جماعت مکروہ تنزیہی ہے تامل ١ ھ ١ ھ اختصاراً ۔ (ت) (فتاویٰ رضویہ ج ٧ ص ٤٣٢۔ ٤٣١، لاہور، ، ردالمحتار ج ٢ ص ٤٣٧۔ ٤٣٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

فرائض کی قضاء کو نوافل کی ادائیگی پر مقدم کرنا

ہر چند کہ شب برأت اور دیگر شب ہائے مقدسہ میں نفلی عبادات کرنا بلاکراہت جائز ہیں بلکہ مستحسن اور مستحب ہیں، تاہم جن لوگوں کی کچھ فرض نمازیں چھوٹی ہوئی ہوں وہ ان مقدس راتوں میں اپنی قضاء نمازوں کو پڑھیں، اسی طرح نفلی روزوں کی بجائے جو فرض روزے چھوٹ گئے ہوں ان روزوں کی قضاء کریں، اصل یہ ہے کہ مسلمان کو چاہیے کہ اس کی جتنی نمازیں قضاء ہوں ان کا حساب کرکے تمام کاموں سے مقدم ان نمازوں کی قضاء کرے اور کم از کم درجہ یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے ساتھ ایک قضاء نماز پڑھے اور اس کی نیت یوں کرے : میں آخری نماز فجر کی نیت کرتا ہوں جس کو میں نے ادا نہیں کیا، پھر اسی طرح آخری ظہر اور آخری عصر کی نیت کرے۔ ہر روز وتر کی بھی قضاء کرے اور جب بھی اس کو عبادت کرنے کا موقع ملے زیادہ سے زیادہ فرض نمازوں کو قضاء کرے، خصوصاً جب حج یا عمرہ کے لیے جائے، اسی طرح جو روزے چھوٹ گئے ہوں، ان روزوں کو بھی جلد ازجلد قضاء کرلے اور بہر حال ترک کیے ہوئے فرائض کی قضاء کو نوافل کی ادا پر مقدم کرے، کیونکہ اگر وہ نوافل نہیں پڑھے گا تو اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی اور نہ اسے کسی عذاب کا خطرہ ہوگا اور اگر اس کے ذمہ فرائض رہ جائیں گے تو اس سے باز پرس ہوگی اور اس کو بہرحال عذاب کا خطرہ ہوگا۔

القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 3