أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الۡمُجۡرِمِيۡنَ فِىۡ عَذَابِ جَهَنَّمَ خٰلِدُوۡنَ ۞

ترجمہ:

بیشک جرم کرنے والے ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

بے شک جرم کرنے والے ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے ان سے وہ عذاب کم نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں مایوسی سے پڑے رہیں گے ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے اور وہ (دوزخ کے نگران فرشتے سے) پکار کر کہیں گے اے ملک ! چاہیے کہ تمہارا رب ہمیں ختم کردے، وہ کہے گا : تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو بیشک ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے لیکن تم میں سے اکثر حق کو ناپسند کرنے والے تھے (الزخرف :74-78)

دوزخ کے نگران فرشتے مالک سے اہل دوزخ کا کلام

اس سے پہلی آیتوں میں اہل جنت کے احوال بیان فرمائے تھے اور اب وہ آیتیں ذکر فرمائی ہیں جن میں اہل دوزخ کے احوال بیان فرمائے ہیں کیونکہ ہر چیز اپنی ضد ضے پہچانی جاتی ہے اور قرآن مجید کا اسلوب ہے کہ ترغیب اور ترہیب کی آیتیں ساتھ ساتھ ذکر فرماتا ہے تاکہ نیک اعمال کی طرف رغبت ہو اور برے کاموں سے نفرت ہو اور اطاعت گزار کی نافرمان پر فضیلت ظاہر ہو۔

نیز فرمایا : اور ان سے وہ عذاب کم نہیں کیا جائے گا، اور وہ عذاب میں کمی سے مایوس ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ کافروں اور بدکاروں کو سزا دے گا، اوّل تو یہ ہے کہ کافر ہوں یا مومن اور بدکار ہوں یا نیکوکار، سب اللہ تعالیٰ کے بندے اور مخلوق ہیں اور خالق اپنی مخلوق کے ساتھ یا مالک اپنی مملوک کے ساتھ جو معاملہ بھی کرے وہ ظلم نہیں ہے، دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اختیار عطا فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ وہ کفر اور معصیت سے اجتناب کریں ورنہ ان کو دوزخ میں عذاب ہوگا، اس حکم کے باوجود جنہوں نے اپنے اختیار سے کفر اور معصیت کا ارتکاب کیا تو یہ خود ان کا اپنے اوپرظلم ہے، اللہ تعالیٰ کا ان پر ظلم نہیں ہے۔

مالک دوزخ کے نگران فرشتے کا نام ہے، اس سے کفار کہیں گے اور دوزخ کے عذاب کی شکایت کریں گے، محمد بن کعب قرظی بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچائی گئی ہے کہ کفار دوزخ کے نگران سے فریاد کریں گے اور ہر روز اس سے شکایت کریں گے، جب وہ مایوس ہوجائیں گے تو کہیں گے : اے مالک ! اپنے رب سے کہو کہ ہم کو موت ہی دے دے، تو مالک اسی سال تک ان کو جواب نہیں دے گا اور ایک سال تین سو تریسٹھ دن کا ہوگا اور ایک دن ہزار سال کا ہوگا، پھر اس کے بعد ان سے کہے گا : تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو۔ (الجامع لاحکام القرآن ج ١٦ ص ١٠٨)

امام ترمذی نے اعمش کا قول نقل کیا ہے کہ ان کافروں کے سوال اور مالک کے جواب کے درمیان ایک ہزار سال کا عرصہ لگے گا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٨٦)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 74