وَتَبٰـرَكَ الَّذِىۡ لَهٗ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا ۚ وَعِنۡدَهٗ عِلۡمُ السَّاعَةِ ۚ وَاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 85
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَتَبٰـرَكَ الَّذِىۡ لَهٗ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا ۚ وَعِنۡدَهٗ عِلۡمُ السَّاعَةِ ۚ وَاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور بہت برکت والا ہے وہ جس کی آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان کی ہر چیز پر حکومت ہے اور اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جائو گے
تفسیر:
الزخرف : ٨٥ میں فرمایا : ” اور بہت برکت والا ہے وہ جس کی آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان کی ہر چیز پر حکومت ہے اور اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جائو گے “
اس آیت میں بھی اس پر دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ اللہ تعالیٰ کے بیٹے نہیں ہیں، کیونکہ اس آیت اللہ تعالیٰ نے میں فرمایا ہے : وہ بہت برکت والا ہے اور یہاں برکت سے مراد دو معنی ہوسکتے ہیں : ایک معنی ہے ثبوت اور بقاء اور دوسرا معنی ہے کثرت خیر۔ اگر پہلا معنی مراد ہو یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ ثابت ہے اور باقی ہے تو اس کی اولاد کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اولاد کی ضرورت اس کو ہوتی ہے جو فانی ہو اور مرنے والا ہو، وہ چاہتا ہے کہ اس کے بعد اس کی اولاد اس کے مشن کو جاری رکھے اور جب وہ ہمیشہ ثابت اور باقی ہے اور لافانی اور لازوال ہے تو اس کی اولاد کی کیا ضرورت ہے نیز بیٹا باپ کی جنس سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ واجب اور قدیم ہے، اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہوتے تو وہ بھی واجب اور قدیم ہوتے حالانکہ حضرت عیسیٰ ممکن اور حادث ہیں پہلے نہ تھے اور پھر پیدا ہوئے اور عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق ان کو موت آچکی ہے اور مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق قیامت سے پہلے ان پر موت آئے گی اور اگر برکت کا معنی کثرت خیر ہو تو اس آیت کا معنی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ بذاتہ بہت خیر کثیر کا مالک ہے، اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہوتے تو وہ بھی بذاتہ خیر کثیر کے مالک ہوتے، حالانکہ وہ اپنی تمام ضروریات میں اللہ تعالیٰ کی طرف محتاج تھے۔ اور فرمایا : ” اور اس کے پاس قیامت کا علم ہے “ یعنی جس طرح اس کی قدرت کامل ہے اسی طرح اس کا علم بھی کامل ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 85