وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًاۚ-وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۵)

اور بےشک ہم نے داود اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایا (ف۲۱) اور دونوں نے کہا سب خوبیاں اللہ کو جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت بخشی (ف۲۲)

(ف21)

یعنی علمِ قضا و سیاست اور حضرت داؤد کو پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کا علم دیا اور حضرت سلیمان کو چوپایوں اور پرندوں کی بولی کا ۔ (خازن)

(ف22)

نبوّت و مُلک عطا فرما کر اور جِن و انس اور شیاطین کو مسخَّر کر کے ۔

وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍؕ-اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ(۱۶)

اور سلیمان داود کا جانشین ہوا (ف۲۳) اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں سے ہم کو عطا ہوا (ف۲۴) بےشک یہی ظاہرفضل ہے (ف۲۵)

(ف23)

نبوّت و علم و مُلک میں ۔

(ف24)

یعنی بکثرت نعمتیں دنیا و آخرت کی ہم کو عطا فرمائی گئیں ۔

(ف25)

مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ الصلٰوۃ والتسلیمات کو اللہ تعالٰی نے مشارق و مغاربِ ارض کا مُلک عطا فرمایا چالیس سال آپ اس کے مالک ر ہے پھر تمام دنیا کی مملکت عطا فرمائی جِن ، انس ، شیطان ، پرندے ، چوپائے ، درندے سب پر آپ کی حکومت تھی اور ہر ایک شے کی زبان آپ کو عطا فرمائی اور عجیب و غریب صنعتیں آپ کے زمانہ میں برروئے کار آئیں ۔

وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ وَ الطَّیْرِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ(۱۷)

اور جمع کیے گئے سلیمان کے لیے اس کے لشکر جنّوں اور آدمیوں اور پرندوں سے تو وہ روکے جاتے تھے (ف۲۶)

(ف26)

آگے بڑھنے سے تاکہ سب مجتمع ہو جائیں پھر چَلائے جاتے تھے ۔

حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِۙ-قَالَتْ نَمْلَةٌ یّٰۤاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْۚ-لَا یَحْطِمَنَّكُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْدُهٗۙ-وَ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(۱۸)

یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کے نالے پر آئے (ف۲۷) ایک چیونٹی بولی (ف۲۸) اے چیونٹیو اپنے گھروں میں چلی جاؤ تمہیں کچل نہ ڈالیں سلیمان اور اُن کے لشکر بے خبری میں (ف۲۹)

(ف27)

یعنی طائف یا شام میں اس وادی پر گزرے جہاں چیونٹیاں بکثرت تھیں ۔

(ف28)

جو چیونٹیوں کی ملکہ تھی وہ لنگڑی تھی ۔

لطیفہ : جب حضرت قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کوفہ میں داخل ہوئے اور وہاں کی خَلق آپ کی گرویدہ ہوئی تو آپ نے لوگوں سے کہا جو چاہو دریافت کرو ؟ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اس وقت نوجوان تھےآپ نے دریافت فرمایا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی چیونٹی مادہ تھی یا نر ؟ حضرت قتادہ ساکت ہو گئے تو امام صاحب نے فرمایا کہ وہ مادہ تھی آپ سے دریافت کیا گیا کہ یہ آپ کو کس طرح معلوم ہوا ؟ آپ نے فرمایا قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا ” قَالَت نَملَۃ” اگر نر ہوتی تو قرآن شریف میں” قَالَ نَمْلَۃ ” وارد ہوتا ۔ (سبحان اللہ اس سے حضرت امام کی شانِ علم معلوم ہوتی ہے) غرض جب اس چیونٹی کی ملکہ نے حضرت سلیمان کے لشکر کو دیکھا توکہنے لگی ۔

(ف29)

یہ اس نے اس لئے کہا کہ وہ جانتی تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نبی ہیں صاحبِ عدل ہیں جبر اور زیادتی آپ کی شان نہیں ہے اس لئے اگر آپ کے لشکر سے چیونٹیاں کچل جائیں گی تو بے خبری ہی میں کچل جائیں گی کہ وہ گزرتے ہوں اور اس طرف التفات نہ کریں چیونٹی کی یہ بات حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین میل سے سُن لی اور ہوا ہر شخص کا کلام آپ کے سمعِ مبارک تک پہنچاتی تھی جب آپ چیونٹیوں کی وادی پر پہنچے تو آپ نے اپنے لشکر وں کو ٹھہرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے گھروں میں داخل ہو گئیں سیر حضرت سلیمان علیہ السلام کی اگرچہ ہوا پر تھی مگر بعید نہیں ہے کہ یہ مقام آپ کا جائے نُزول ہو ۔

فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا وَ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۹)

تو اس کی بات سے مسکرا کر ہنسا (ف۳۰) اور عرض کی اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں شکر کروں تیرے احسان کا جو تو نے (ف۳۱) مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے اور یہ کہ میں وہ بھلا کام کرو ں جو تجھے پسند آئے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں میں شامل کر جو تیرے قرب خاص کے سزاوار ہیں (ف۳۲)

(ف30)

انبیاء کا ہنسنا تبسّم ہی ہوتا ہے جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ حضرات قہقہہ مار کر نہیں ہنستے ۔

(ف31)

نبوّت و مُلک و علم عطا فرما کر ۔

(ف32)

حضراتِ ا نبیاء و اولیاء ۔

وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ ﳲ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآىٕبِیْنَ(۲۰)

اور پرندوں کا جائزہ لیا تو بولا مجھے کیا ہوا کہ میں ہُدہُد کو نہیں دیکھتا یا وہ واقعی حاضر نہیں

لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَاۡاَذْبَحَنَّهٗۤ اَوْ لَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(۲۱)

ضرور میں اُسے سخت عذاب کرو ں گا (ف۳۳) یا ذبح کردوں گا یا کوئی روشن سند میرے پاس لائے (ف۳۴)

(ف33)

اس کے پر اُکھاڑ کر یا اس کو اس کے پیاروں سے جدا کر کے یا اس کو اس کے اقران کا خادم بنا کر یا اس کو غیر جانوروں کے ساتھ قید کر کے اور ہُدہُد کو حسبِ مصلحت عذاب کرنا آپ کے لئے حلال تھا اور جب پرند آپ کے لئے مسخَّر کئے گئے تھے تو تادیب و سیاست مقتضائے تسخیر ہے ۔

(ف34)

جس سے اس کی معذوری ظاہر ہو ۔

فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ(۲۲)

تو ہُدہُد کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہرا اور آکر (ف۳۵) عرض کی کہ میں وہ بات دیکھ آیا ہوں جو حضور نے نہ دیکھی اور میں شہرِ سبا سے حضور کے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں

(ف35)

نہایت عجز و انکسار اور ادب و تواضُع کے ساتھ معافی چاہ کر ۔

اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ وَ اُوْتِیَتْ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ(۲۳)

میں نے ایک عورت دیکھی (ف۳۶) کہ ان پر بادشاہی کررہی ہے اور اُسے ہر چیز میں سے ملا ہے (ف۳۷) اور اس کا بڑا تخت ہے (ف۳۸)

(ف36)

جس کا نام بلقیس ہے ۔

(ف37)

جو بادشاہوں کے لئے شایان ہوتا ہے ۔

(ف38)

جس کا طول اسّی گز عرض چالیس گز سونے چاندی کا جواہرات کے ساتھ مُرصّع ۔

وَجَدْتُّهَا وَ قَوْمَهَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَهُمْ لَا یَهْتَدُوْنَۙ(۲۴)

میں نے اُسے اور اُس کی قوم کو پایا کہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں (ف۳۹) اور شیطان نے ان کے اعمال ان کی نگاہ میں سنوار کر ان کو سیدھی راہ سے روک دیا (ف۴۰) تو وہ راہ نہیں پاتے

(ف39)

کیونکہ وہ لوگ آفتاب پرست مجوسی تھے ۔

(ف40)

سیدھی راہ سے مراد طریقِ حق و دینِ اسلام ہے ۔

اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ یُخْرِ جُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ(۲۵)

کیوں نہیں سجدہ کرتے اللہ کو جو نکالتا ہے آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزیں (ف۴۱) اور جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو (ف۴۲)

(ف41)

آسمان کی چُھپی چیزوں سے مِینہ اور زمین کی چُھپی چیزوں سے نباتات مراد ہیں ۔

(ف42)

اس میں آفتاب پرستوں بلکہ تمام باطل پرستوں کا رد ہے جو اللہ تعالٰی کے سوا کسی کو بھی پوجیں ، مقصود یہ ہے کہ عبادت کا مستحق صر ف وہی ہے جو کائناتِ ارضی و سماوی پر قدرت رکھتا ہو اور جمیع معلومات کا عالِم ہو جو ایسا نہیں وہ کسی طرح مستحقِ عبادت نہیں ۔

اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۩(۲۶)

اللہ ہے کہ اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ بڑے عرش کا مالک ہے

قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(۲۷)

سلیمان نے فرمایا اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا یا تو جھوٹوں میں ہے (ف۴۳)

(ف43)

پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مکتوب لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ از جانب بندۂ خدا سلیمان بن داؤد بسوئے بلقیس ملکۂ شہرِ سبا بسم اللہ الرحمن الرحیم اس پر سلام جو ہدایت قبول کرے اس کے بعد مدعا یہ کہ تم مجھ پر بلندی نہ چاہو اور میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہو اس پر آپ نے اپنی مُہر لگائی اور ہُدہُد سے فرمایا ۔

اِذْهَبْ بِّكِتٰبِیْ هٰذَا فَاَلْقِهْ اِلَیْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَا ذَا یَرْجِعُوْنَ(۲۸)

میرا یہ فرمان لے جا کر اُن پر ڈال پھر اُن سے الگ ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں (ف۴۴)

(ف44)

چنانچہ ہُدہُد وہ مکتوب گرامی لے کر بلقیس کے پاس پہنچا اس وقت بلقیس کے گرد اس کے اَعیان و وزراء کا مجمع تھا ہُدہُد نے وہ مکتوب بلقیس کی گود میں ڈال دیا اور وہ اس کو دیکھ کر خوف سے لرز گئی اور پھر اس پر مُہر دیکھ کر ۔

قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّیْۤ اُلْقِیَ اِلَیَّ كِتٰبٌ كَرِیْمٌ(۲۹)

وہ عورت بولی اے سردارو بےشک میری طرف ایک عزت والا خط ڈالا گیا (ف۴۵)

(ف45)

اس نے اس خط کو عزّت والا یا اس لئے کہا کہ اس پر مُہر لگی ہوئی تھی اس سے اس نے جانا کہ کتاب کا بھیجنے والا جلیل المنزلت بادشاہ ہے یا اس لئے کہ اس مکتوب کی ابتداء اللہ تعالٰی کے نامِ پاک سے تھی پھر اس نے بتایا کہ وہ مکتوب کس کی طرف سے آیا ہے چنانچہ کہا ۔

اِنَّهٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَ اِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ(۳۰)

بےشک وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور بےشک وہ اللہ کے نام سے ہے جو نہایت مہربان رحم والا

اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَ اْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ۠(۳۱)

یہ کہ مجھ پر بلندی نہ چاہو (ف۴۶) اور گردن رکھتے میرے حضور حاضر ہو (ف۴۷)

(ف46)

یعنی میری تعمیلِ ارشاد کرو اور تکبُّر نہ کرو جیسا کہ بعض بادشاہ کیا کرتے ہیں ۔

(ف47)

فرمانبردارانہ شان سے مکتوب کا یہ مضمون سنا کر بلقیس اپنی اعیانِ دولت کی طرف متوجّہ ہوئی ۔