امام احمدرضا اور تطبیق بین الاحادیث

 

کافر کا ہدیہ قبول کرنا چاہئے یا نہیں؟ اس باب میں مختلف احادیث وارد ہیں۔ بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کا ہدیہ قبول فرمایا ہے جبکہ بعض دیگر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رد فرمایا۔ان احادیث میں تطبیق اور سیدی امام اہل سنت کی تحقیق۔

 

امام اہل سنت فرماتے ہیں:حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کافروں کے ہدیے قبول بھی فرمائے اور رد بھی فرمائے۔

 

*ہدیہ قبول کرنے کی احادیث*

 

*حدیث اول* کسرٰی بادشاہ ایران نے ایک خچر نذر کیا۔ قبول فرمایا: الحاکم فی المستدرك عن ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنهما قال ان کسرٰی اھدی للنبی صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم بغلة فرکبھا بحبل من شعر ثم اردفنی خلفه(١) قال الحافظ الدمیاطی فی ذٰلك نظر لان کسرٰی مزق کتابه صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فبعید ان یھدی له (٢)

اقول؛ یرد نظرہ حدیث الآتی و اما استبعادہ فقد اجاب عنه العلماء بجوابین ذکرھما الزرقانی فی شرحه (۳) علی المواھب فی ذکر بغاله صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم.

حاکم نے مستدرک میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی ہے انھوں نے فرمایا کسرٰی شاہ ایران نے آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک خچر بطور تحفہ بھیجا اور آپ نے اس پر سواری فرمائی جبکہ اس کی لگان بالوں کی رسی تھی اور آپ نے مجھے اپنے پیچھے بٹھایا. حافظ دمیاطی نے فرمایا اس میں اشکال ہے اس لئے کسرٰی نے آپ کا نامه مبارک چاک کردیا تھا، اور یہ بات ناقابل فہم اور بعید ہے کہ اس نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا ہو،

میں (امام اہل سنت) کہتا ہوں محدث دمیاطی کے اعتراض کو اگلی حدیث مسترد کر رہی ہے۔ رہا اس کا بعید کہنا تو اہل علم حضرات نے اس کے دو جواب دیئے ہیں جن کو علامہ زرقانی نے مواھب اللدینہ کی شرح میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وآلہ وسلم کے خچروں کے شمار کے سلسلے میں ذکر کیا ہے۔

 

(۱)المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحافیۃ تعلیم النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لابن عباس دارالفکر بیروت ۳ /۵۴۱)

 

(۲) شرح الزرقانی علی المواھب اللدینہ ذکر بغالہٖ علیہ الصلٰوۃ والسلام دارالمعرفۃ بیروت ۳ /۳۸۹)

 

(۳)شرح الزرقانی علی المواھب اللدینہ ذکر بغالہٖ علیہ الصلٰوۃ والسلام دارالمعرفۃ بیروت ۳ /۳۸۹)

 

*حدیث دوم* یوں ہی بادشاہ فدک نے چار اونٹنیاں پر بار نذر کی۔ قبول فرمائیں، اور بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بخش دی۔

رواہ ابو اداؤد عن بلال المؤذن رضی ﷲ تعالٰی عنه و فیه انه صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم قال لبلال فاقبضھن واقض دینك.(٤)

اس کو امام ابوداؤد نے حضرت بلال مؤذن کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) اس میں مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا : ان پر قبضہ کرکے اپنا قرض ادا کرو۔

 

(۴)سنن ابی داؤد کتاب الخراج والفی باب فی الامام یقبل ھدایا المشرکین آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۷۸)

 

*حدیث سوم* قیصر روم وغیرہ سلاطین کفار کے ہدایا قبول فرمائے۔

احمد(٥) والترمذی (٦) عن امیر المومنین علی کرم ﷲ تعالٰی وجهه، قال اھدی کسرٰی لرسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم فقبل منه واھدی قیصر فقبل منه واھدت له الملوک فقبل منها.

امام احمد اور ترمذی نے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا کی ہے کہ آپ نے فرمایا کسرٰی بادشاہ ایران نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو تحفہ بھیجا تو آپ نے اس کا تحفہ قبول فرمایا۔ اسی طرح قیصر روم (روم کے بادشاہ) نے تحفہ بھیجا وہ بھی آپ نے قبول فرمایا۔ اسی طرح دیگر بادشاہوں نے بھی ہدئے بھیجے تو آپ نے وہ بھی قبول فرمائے۔

 

(٥) مسند احمد بن حنبل عن علی بن ابی طالب المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۴۵ ۔ ۹۶)

 

(٦) جامع الترمذی ابواب السیر باب ماجاء فی قبول ہدایا اللمشرکین آمین کمپنی اردو بازار لاہور ۱ /۱۹۱)

 

*حدیث چھارم* قتیلہ بنت عبدالعزٰی بن سعد اپنی بیٹی حضرت سیدتنا اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئی اور کچھ گوشت کے زندہ جانور ، پنیر، گھی ہدیہ لائی، بنت صدیق نے نہ لیا، نہ ماں کو گھر میں آنے دیا کہ تو کافرہ ہے۔ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا ، آیت اتری: لاینھٰکم ﷲ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین (٧)

اللہ تعالٰی نے ان کافروں کے ساتھ نیک سلوک سے تمھیں منع نہیں فرماتا جو تم سے دیں میں نہ لڑیں ۔

(٧) القرآن الکریم ۶۰ /۸)

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہدیہ لو اور گھر میں آنے دو۔

رواہ الامام احمد عن عامر بن عبداﷲ بن الزییر رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔(٨)

امام احمدنے بن اس کو عامر بن عبداللہ زبیر سے روایت کیا ہے۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم۔

 

(٧) مسند احمد بن حنبل عن علی ابی طالب المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۴۵)

يہ حدیثیں تو جواز کی ہیں۔

 

*ہدیہ رد کرنے کی احادیث*

 

*حدیث اول* اور عیاض رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پیش از اسلام کوئی ہدیہ یا ناقہ نذر کیا، فرمایا: تو مسلمان ہے؟ عرض کی نہ۔ فرمایا :اني نھیت عن زبدالمشرکین۔ رواہ عن احمد وابوداؤد والترمذی (٩) وقال حسن صحیح۔

میں کافروں کی دی ہوئی چیزیں لینے سے منع کیا گیا ہوں (امام احمد ، ابوداؤد اور ترمذی نے اس کو روایت کیا ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا یہ حسن صحیح ہے۔

 

(٩) جامع الترمذی ابواب السیر باب ماجاء فی قبول ھدایا للمشرکین آمین کمپنی اردو بازار لاہور ۱ /۱۹۱)

 

*حدیث دوم* یونہی ملاعب الاسنہ نے کچھ ہدیہ نذر کیا۔ فرمایا: اسلام لا۔ انکار کیا۔ فرمایا:اني لا اقبل ہدیة مشرک.

رواہ الطبرانی فی الکبیر(١٠) عن کعب بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند صحیح۔

میں کسی مشرک کا ہدیہ قبول نہیں فرماتا۔ (امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے بسند صحیح اسے روایت کیا ہے۔

 

(١٠) المعجم الکبیر للطبرانی حدیث ۱۳۸ المکتبۃ الفیصلیۃ ۱۹ /۷۰)

 

*حديث سوم* ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: انا لا نقبل شیئا من المشرکین۔

رواہ احمد (١١) والحاکم عن حکیم بن حزام رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند صحیح۔

ہم مشرکوں سے کوئی چیز قبول نہیں فرماتے (اس کو امام احمد اور حاکم نے سند صحیح کے ساتھ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔

 

(١١) مسند امام احمد بن حنبل عن حکیم ابن حزام المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۴۰۳)

اسی طرح اور بھی حدیثیں رد و قبول دونوں میں وارد ہیں.

 

*بعض علماء کی تطبیق*

فمنھم من زعم ان الرد نسخ القبول ورد بجھل التاریخ و منھم من وفق بان من قبله منهم فاھل کتاب لا مشرک کما فی مجمع البحار.

اقول: قد قبل عن کسرٰی و لم یکن کتابیا الا ان یتمسك فی المجوس سنوا بھم سنة اھل الکتاب غیر ناکحی نسألھم ولا اٰکل ذبائحھم (١٢)

ان میں کچھ وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ ہدیہ رد کرنے سے اس کا قبول کرنا منسوخ ہوا اور یہ غلط ہے کیونکہ تاریخ معلوم نہیں۔ اور بعض نے دونوں میں مطابقت اور موافقت پیدا کی کہ جن کا ہدیہ قبول فرمایا وہ اہل کتاب تھے مشرک نہ تھے جیسا کہ مجمع البحارمیں ہے۔

اقول:(میں امام اہل سنت کہتا ہوں) کہ آپ نے کسرٰی شاہ ایران کا ہدیہ قبول فرمایا حالانکہ وہ اہل کتاب میں سے نہ تھا بلکہ مجوس سے تھا۔ مگر یوں استدلال کیا جائے کہ مجوسی نے اہل کتاب کی روش اختیار کی البتہ ان کی عورتوں سے نکاح اور ان کے ذبیحہ کا کھانا جائز نہیں۔

 

(١٢) التلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر حدیث ۱۵۳۳ المکتبۃ الاثریۃ سانگلہ ہل ۳ /۱۷۲)

 

*تحقیق امام اہل سنت*

اس بارہ میں تحقیق یہ ہے کہ یہ امر مصلحت وقت وہ حالت ہدیہ آرندہ و ہدیہ گیرندہ پر ہے۔

*اگر تالیف قلب کی نیت ہے* اور امید رکھتا ہےکہ اس سے ہدایا و تحاتف لینے دینے کا معاملہ رکھنے میں اسے اسلام کی طرف رغبت ہوگی تو ضرور لے۔اور اگر حالت ایسی ہے کہ *نہ لینے میں اسے کوفت پہنچے گی* اور اپنے مذہب باطل سے بیزار ہوگا تو ہر گز نہ لے۔ اور اگر اندیشہ ہے کہ *لینے کے باعث معاذاللہ اپنے قلب میں کافر کی طرف سے کچھ میل* یا اس کے ساتھ کسی امر دینی میں نرمی ومداہنت راہ پائے گی تو اس ہدیہ کو آگ جانے۔

 

*تحفوں کا اثر*

اور بیشک تحفوں کا رغبت و محبت پیدا کرنے میں بڑا اثر ہوتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:تھادوا تحابوا۔ رواہ ابو یعلی (١٣) بسند جید عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنه زاد ابن عساکر و تصافحوا یذھب الغل عنکم (١٤) و عندہ عن ام المومنین الصدیقة رفعته تھادوا تزدادو احبا (١٥) الحدیث۔

ایک دوسرے کو ہدیہ دے دیا کرو تاکہ آپس کی محبت میں اضافہ ہو، ابو یعلی نے اس کو جید سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے۔ اور ابن عساکر نے یہ اضافہ کیا کہ ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کیا کرو۔ (یعنی ہاتھ ملایا کرو) اس سے تمھارا باہمی کینہ دور ہوگا اور اسی نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مرفوعا روایت کیا ہے ہدیہ دیا کرو تاکہ تمھاری باہمی محبت میں اضافہ اورترقی ہو الحدیث ۔

 

(١٣) کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن ابی ہریرۃ حدیث ۱۵۰۵۵ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۱۱۰)(١٤) کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن ابی ہریرۃ حدیث ۱۵۰۵۶ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۱۱۰ )(١٥) کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن عائشہ حدیث ۱۵۰۵۷ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۱۱۰)

 

ایک حدیث میں ہے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: الهدیة تذھب بالسمع والقلب والبصر۔ رواہ الطبرانی (١٦) فی الکبیر عن عصمۃ بن مالک رضی ﷲ تعالٰی عنہ حسنہ السیوطی وضعفه الہیثمي وغیرہ۔

ہدیہ آدمی کو اندھا، بہرا، دیوانہ کردیتا ہے (امام طبرانی نے اس کو معجم کبیر میں عصمۃ بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ امام سیوطی نے اس کی تحسین فرمائی جبکہ ہیثمی وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا۔ (ت)

 

(١٦) المعجم الکبیر للطبرانی حدیث ۴۸۸ المکتبہ الفیصلیہ ۱۷ /۱۸۳)

 

نیز حدیث میں ہے۔ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہوسلم: الھدیة تعور عین الحکیم.

اخرجہ الدیلمی (١٧) عن ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما بسند ضعیف۔

ہدیہ حکیم کی آنکھ اندھی کردیتا ہے.

(دیلمی نے بسندضعیف حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے حوالے سے اس کی تخریج فرمائی۔ ت)

 

(١٧) الفردوس بمأثور الخطاب حدیث ۶۹۶۹ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۳۳۵)

 

اور اگر *نہ کچھ مصلحت ہو نہ کچھ اندیشہ تو مباح ہے* چاہے لے چاہے نہ لے۔ و قد بنی الامر فی ذلك علی المصالح علماؤنا الکرام کما نقله فی الباب الرابع عشر من کراھیة الہندیة (١٨) عن المحیط عن الامام الفقیه ابی جعفر وغیرہ فراجعه۔

ہمارے علماء کرام نے اس معاملہ میں مختلف مصالح پر بنیاد رکھی ہے جیسا کہ اس کو فتاوٰی ہندیہ کی بحث کراہت چودھویں باب میں بحوالہ محیط امام فقیہ ابو جعفر وغیرہ نے نقل کیا ہے لہذا اس کی طرف رجوع کیا جائے۔

 

(١٨) فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراھیۃ الباب الرابع عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۴۸۔ ۳۴۷)

واللہ تعالٰی اعلم۔

 

(فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 618 تا 623 اپلیکیشن)

 

ترتیب و پیشکش

ابو الحسن محمد شعیب خان

٨ اگست ٢٠٢٠