لوکان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب پر کچھ اشکالات کے جوابات
لوکان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب پر کچھ اشکالات کے جوابات
بقلم اسد طحاوی
ہم نے ایک مشہور روایت لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ پر ایک تحریر پیش کی تھی
اور اسکے مرکزی راوی مشرح بن ھاعان پر محدثین کی توثیق اور جرح کا جواب پیش کیا تھا
لیکن ہمارے ایک پیارے فاضل بھائی جناب عبد الرحمن المعلمی صاحب نے اس روایت پر اپنے اشکالات پیش کیے اور انکی نظر میں یہ روایت ضعیف ہے
اور ہماری تحیق پر انہوں نے کچھ اعتراضات وارد کیے تو ہم ان شاءاللہ اسکا جواب پیش کرتے ہیں لیکن ہمارے فریق کو اختلاف کا حق حاصل ہے یہ تحریر کسی کو اپنی تحقیق منوانے کے لیے نہیں بلکہ موقف میں نظر ثانی کرینگے اس نیت سے ہم جواب پیش کررہے ہیں
تو ہم نے اس روایت کے مرکزی راوی مشرح بن ھاعان پر جو توثیقات پیش کی تھیں و ہ درج ذیل تھیں
جیسا کہ پہلی صریح توثیق متشدد ناقد امام یحییٰ بن معین سے پیش کی ہے کہ یہ ثقہ ہیں
۱۔ امام یحییٰ بن معین (جو کہ متشدد ناقدین میں سے ہیں ) انہوں نے ثقہ قرار دیا
۲۔ امام عجلی توثیق کرتے ہیں
1728 – مشرح بن هاعان مصرى تَابِعِيّ ثِقَة
(الثقات عجلی)
۳۔ امام حاکم نے انکی روایت کو صحیحین کی شرط پر کہا ہے اور امام ذھبی نے موافقت کی ہے
۴۔ امام ابن عدی نے :
ارجواء لا باس بہ
۴۔ امام ذھبی سے توثیق :
8549 – مشرح بن هاعان [د، ت، ق] المصري.
عن عقبة بن عامر.
صدوق، لينه ابن حبان.
وقال عثمان بن سعيد، عن ابن معين: ثقة.
قال ابن حبان: يكنى أبا مصعب.
يروي عن عقبة مناكير لا يتابع عليها.
روى عنه الليث، وابن لهية، فالصواب ترك ما انفرد به.
امام ذھبی فرماتے ہیں کہ مشرح یہ صدوق ہے
لیکن اس میں ضعف کی جرح ابن حبان نے کی ہے
اور عثمان بن سعید نے ابن معین سے اسکی توثیق بیان کی ہے
ابن حبان نے کہا کہ اسکی کنیت ابو مصعب ہے
اور یہ عقبہ سے مناکیر بیان کرتا ہے جس میں اسکا کوءی متابع نہیں
ارو اس سے اللیث ، ابن لھیہ بیان کرتے ہیں اور اسکے تفرد میں اسکو ترک کرنا زیادہ صحیح ہے
(میزان الاعتدال)
اس پر ہم نے ایک دعویٰ قائم کیا تھا کہ مشرح پر جرح میں ابن حبان کا تفرد ہے اور وہ متفقہ علیہ طور پر متشدد ناقد ہیں جنکا تفرد جرح میں قبول نہیں تو
ہمارے فاضل دوست نے اسکے جواب میں یہ لکھا :
⚫ اقول: آپ نے الکامل سے امام ابن معین کی توثیق نقل کی ہے تو اس توثیق کے متصل بعد اس توثیق کو نقل کرنے والے امام عثمان دارمی فرماتے ہیں:دراج و مشرح ليسا بكل ذاك و هما صدوقان
الكامل لابن عدي 231/8 تاريخ ابن معين رواية الدارمي 204/1
تو آپ کا امام ابن حبان کے تفرد والا اعتراض تو ختم ہو جاتا ہے
الجواب :
جو عبارت ہمارے دوست نے پیش کی ہے امام سعید الدارمی کی وہ یہ ہے :
قلت فمشرح بن هاعان فَقَالَ ثِقَة قَالَ عُثْمَان ومشرح لَيْسَ بِذَاكَ وَهُوَ صَدُوق
امام دارمی کہتے ہیں میں نے مشرح بن ماھان کے حوالے سے (ابن معین سے پوچھا) تو فرمایا کہ وہ ثقہ ہیں
اور عثمان الدارمی نے کہا کہ مشرح کہ یہ ایسا قوی نہیں لیکن صدوق ہے
تو ہم فاضل دوست سے عرض کرینگے کہ اس قول میں جرح تو کوئی نہیں ہے
اعلی درجے کی توثیق کی نفی ہے لیکن صدوق تو قرار دیا ہے اور صدوق کا تفرد تو عند المحدثین قبول ہوتا ہے
البتہ اگر امام دارمی اس پر منکرات روایت کرنے کی جرح کر دیتے یا منکر الحدیث وغیرہ کی تو پھر آپکی بات صحیح ہوتی کہ اس پر منکر راویات بیان کرنے پر جرح میں ابن حبان اکیلے نہیں
لیکن یہاں ایسا نہیں یہاں انہوں نے صدوق قرار دیا ہے اور ابن حبان نے ان پر کثرت سے مناکیر بیان کرنے کی جرح کی ہے
اور اس جرح میں وہ منفرد ہی ہیں
اسکے بعد ہم نے ایک قرینہ یہ بھی پیش کیا تھا ابن عدی نے انکی ابن الھیہ سے روایات بیان کر کے مناکیر کی نشاندہی کی اور ایک روایت جس میں ابن الھیہ نہں تھا
جس پر ہمارے فاضل نے کہا کہ ایک روایت میں تو ابن الھیہ نہیں تو وہ مناکیر میں کیوں بیان نہ کی ؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ :
ظاہری بات ہے ابن عدی نے اپنی الکامل میں ہر ثقہ اور غیر ثقہ کی مناکیر بیان کی ہے اگر ایک روایت اسکی واقعی منکر ثابت تھی تو ابن عدی نے بغیر ابن الھیہ کے بھی منکر درج کر دی
لیکن ہمارے دوست یہ بھول گئے ہم نے الکامل میں ابن عدی سے ثبوت پیش کیا تھا وہ اس مذکورہ روایت کو
مشرح بن ماھان کے ترجمے میں کیوں نہ پیش کیا جبکہ یہ تو منکر ہونی چاہیے تھی ؟
اسکا جواب ہمارے فاضل دوست ہم کو نہ دیں تدبر کریں
اسکے بعد ہم نے امام احمد سے ثابت کیا تھا کہ انکے نزدیک مشرح ثقہ و صدوق نہیں ہیں امام احمد نے فقط مشرح کو معروف قرار دیا ہے جو کہ باسند اور انکی کتب میں ثابت ہے اور انکا معروف مذہب ہے کہ ثقہ یا راوی کے تفرد پر وہ منکر کا مطلق اطلاق کرتے ہیں
جسکے جواب میں ہمارے دوست نے یہ لکھا :
____
⚫ اقول:معلوم نہیں کہ موصوف اس سوال کی طرف بھی ملتفت تھے یہ نہیں کہ جب ایک ثقہ راوی کے تفرد کو ایک امام منکر قرار دیتا ہے تو اس کا مقصود کیا ہوتا ہے؟
بلکہ بعض اوقات نقاد تو ثقات کی روایات کو باطل تک کہ دیتے ہیں صرف مختلف قرآئن کی بنا پر اور انہی آئمہ کے لائق تھا کہ وہ ان قرآئن کی بنا پر فیصلہ کر سکیں.
امید ہے کہ موصوف سے یہ بات مخفی نہیں ہوگی.
لیکن اگر ہم امام احمد بن حنبل کے کلام کی طرف کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام احمد اس روایت کو بے اصل کہ رہے ہیں:ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ اﻟﺤﺎﺭﺙ: ﺇﻥ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺳﺌﻞ ﻋﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﻘﺒﺔ ﺑﻦ اﻟﺤﺎﺭﺙ: “ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﺑﻌﺪﻱ ﻧﺒﻲ ﻟﻜﺎﻥ ﻋﻤﺮ”؟.
ﻓﻘﺎﻝ: اﺿﺮﺏ ﻋﻠﻴﻪ؛ ﻓﺈﻧﻪ ﻋﻨﺪﻱ ﻣﻨﻜﺮ.
ابراھیم بن حارث کہتے ہیں امام احمد سے سیدنا عقبہ کی اس روایت کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے کے متعلق سوال کیا گیا تو امام صاحب نے فرمایا:اس کو (کتاب سے) ختم کر دو یہ میرے نزدیک منکر ہے
المنتخب من علل الخلال 191/1
قارئین کرام مذکورہ عبارت سے کس قدر واضح ہے امام احمد نے اس روایت کو معلول قرار دیا ہے
الجواب :
جناب امام احمد کے کلام میں نظر ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کلام میں امام احمد تو اس روایت کو کتاب سے ختم کرنے کا فتویٰ صادر کرہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں میرے نزدیک یہ ضعیف ہے
جبکہ اسکے برعکس امام احمد نے اس روایت کو ۴ بار فضائل صحابہ اور ایک بار مسند احمد میں درج کیا ہے
جبکہ امام احمد کی توکوئی ایسی کتاب ہی نہیں جس میں صحیح احادیث کا التزام ہو تو یہ فتویٰ انہوں نے کونسی کتاب کے بارے دیا کہ یہ روایت ختم کر دی جائے جبکہ خود وہ اس روایت کو متعدد جگہ پر لکھ رہے ہیں
امام احمد کے قول اور عمل میں تضاد ہے
لیکن جب ہم نے امام احمد سے منسوب اس جرح کو دیکھا تو یہ جرح ہی غیر ثابت ہے
جیسا کہ ہمارے دوست نے یہ جرح جس کتاب سے نقل کی ہے وہ درج ذیل ہے :
المنتخب من علل الخلال
جبکہ یہ کتاب امام ابن قدامہ الحنبلی کی ہے جو600ھ کے بعد فوت ہونے والے ہیں اور سند متصل نہین ہے
جبکہ امام احمد کی اپنی کتب جو علل کی ہیں وہ درج ذیل ہیں :
1۔ الكتاب: العلل ومعرفة الرجال
المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
الكتاب: من كلام أحمد بن حنبل في علل الحديث ومعرفة الرجال
المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
2۔ الكتاب: الجامع في العلل ومعرفة الرجال لأحمد بن حنبل
المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
رواية: المروذي وغيره
3۔ الكتاب: سؤالات أبي داود للإمام أحمد بن حنبل في جرح الرواة وتعديلهم
المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
4۔ الكتاب: من سؤالات أبي بكر أحمد بن محمد بن هانئ الأثرم أبا عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل
المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
ان درج ذیل کتب میں امام احمد کے کسی شاگرد اور بیٹے نے یہ جرح اس روایت کے تحت نقل نہیں کی ہے
اور ایک صحیح سند سے روایت کو ایک غیر ثابت قول پر ضعیف کہنا یہ محدثین اور محققین کے اصول کے خلاف ہے
تو امام احمد سے یہ جرح اصولا ثابت ہی نہیں ہے
یہی وجہ ہے کہ امام احمد کی جرح اور انکے عمل میں تضاد پیدا ہو رہا ہے
پھر ہم نے اس روایت پر امام احاکم و امام ذھبی کی تصحیح پیش کی تھی اور امام ابن شاھین کا احتجاج کرنا بھی ثابت ہے
جسکے جواب میں جناب نے فرمایا :
⚫ اقول:امام حاکم کی تصحیح کی حالت اہل علم کے ہاں کا معروف ہے رہی بات امام ذھبی کے تسامح کی تو اس کے جواب میں موصوف نے امام ذھبی کا روایت کو “سیر اعلام النبلاء” میں ذکر کرنا لکھا ہے اور ساتھ امام ذھبی کے منھج کی وضاحت بھی کی ہے کہ وہ روایت کا ضعف ذکر کرتے ہیں.
لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امام ذھبی نے خود اس منھج کی صراحت کی ہے یہ آپ کا استقراء ہے؟
اسکا جواب یہ ہے کہ
امام حاکم کو اکیلا تو ہم نے حجت نہیں قرار دیا تھا امام ذھبی کی موافقت پر جناب نے اسکو بغیر دلیل کے تسامح بنا دیا
جبکہ امام ذھبی کا مشرح کے بارے موقف واضح ہے کہ انکے نزدیک یہ ثقہ (الکاشف) اور صدوق (میزان ) میں انکی تصریح ہے
اور کیا واقعی امام ذھبی کو تسامح ہوا تو اسکے لیے ہم مستدرک کے مشرح کے طریق سے روایات پر امام ذھبی کا حکم پیش کرتے ہیں متعدد روایات پر :
۱۔
805 – وحدثنا علي بن حمشاذ العدل، ثنا بشر بن موسى، ثنا يحيى بن إسحاق السيلحيني، ثنا ابن لهيعة، عن مشرح بن هاعان، عن عقبة بن عامر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فضلت سورة الحج بسجدتين، فمن لم يسجدهما فلا يقرأهما»
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 805 – سكت عنه الذهبي في التلخيص
۲۔
2804 – أخبرنا أبو جعفر محمد بن محمد بن عبد الله البغدادي، ثنا أبو زكريا يحيى بن عثمان بن صالح بن صفوان السهمي بمصر، ثنا أبي، قال: سمعت الليث بن سعد، في المسجد الجامع، يقول: قال أبو مصعب مشرح بن هاعان، قال عقبة بن عامر الجهني رضي الله عنه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا أخبركم بالتيس المستعار؟» قالوا: بلى يا رسول الله، قال: «هو المحل، فلعن الله المحل، والمحلل له» ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعن الله المحل، والمحلل له» هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه، وقد ذكر أبو صالح كاتب الليث، عن ليث سماعه من مشرح بن هاعان “
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 2804 – صحيح
۳۔
4495 – أخبرني عبد الله بن محمد بن إسحاق الخزاعي، بمكة، ثنا أبو يحيى بن أبي مسرة، ثنا عبد الله بن يزيد المقرئ، ثنا حيوة بن شريح، عن بكر بن عمرو، عن مشرح بن هاعان، عن عقبة بن عامر رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لو كان بعدي نبي لكان عمر بن الخطاب» هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه “
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4495 – صحيح
۴۔
7501 – حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا بحر بن نصر، ثنا عبد الله بن وهب، أخبرني حيوة، عن خالد بن عبيد المعافري، عن مشرح بن هاعان، أنه سمع عقبة بن عامر، رضي الله عنه يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من علق تميمة فلا أتم الله له ومن علق ودعة فلا ودع الله له» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه “
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 7501 – صحيح
۵۔
8289 – أخبرني أبو عمرو إسماعيل بن نجيد السلمي، وأبو سعيد أحمد بن يعقوب الثقفي، قالا: أنبأ أبو مسلم، ثنا أبو عاصم، عن حيوة بن شريح، عن خالد بن عبيد، عن مشرح بن هاعان، عن عتبة بن عامر رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من علق ودعة فلا ودع الله له، ومن علق تميمة فلا تمم الله له» هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه “
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 8289 – صحيح
امام ذھبی نے مشرح بن ماھان کی ۵ روایات پر تصحیح کی ہے اور سکوت کیا ہے
اور امام ذھبی الکاشف میں مشرح کو ثقہ اور میزان میں صدوق قرار دیتے ہیں
اور سیر میں امام ذھبی مشہور روایات کی صیحت پر کلام کرتے ہیں سند میں اور اس روایت پر سکوت کرنا ہمارے موقف کو تقویت پہنچاتا ہے
اور امام ابن عساکر کے حوالے سے ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ امام ابن عساکر اپنی تاریخ میں جس روایت پر منکر کا اطلاق کرتے ہیں تو وہ روایت اکثر انکے نزدیک باطل ہوتی ہے
جبکہ اس روایت پر کوئی جرح نہیں کی ہے
اور مشرح کی مذید توثیق امام مغلطائی نے بھی نقل کی ہے :
4570 – (عخ د ت ق) مشرح بن هاعان المعافري، أبو المصعب المصري.
وحسنه أبو علي الطوسي، وذكره الفارسي في جملة الثقات.
(إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال)
تو ابن مقلن وغیرہ جیسے متاخرین سے جرح بیان کرنا موصوف کو کوئی فائدہ نہیں دیتا جبکہ متاخرین میں محدثین نے بھی اس روایت کی توثیق و تصحیح کی ہے
اور امام ذھبی صاحب استقراء کے سامنے ابن مقلن یا انجیسے دیگر محدثین کو پیش نہیں کیا جا سکتا حجت بنا کر
باقی رہا امام ابن حجر کا انکو مقبول کہنا تو امام ابن حجر کا یہ فیصلہ جمہور محدثین اور متقدمین کے آراء کے مقابل باطل ہے
جیسا کہ البانی صاحب نے اس وجہ سے دھوکا کھاتے ہوئے سلسلہ الصحیحیہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں ؛
من علق تميمة فلا أتم الله له، ومن علق ودعة، فلا ودع الله له “.
ولكن إسناده إلى مشرح ضعيف فيه جهالة،
اس سند میں مشرح ضعیف ہے اور اس میں جہالت ہے
(: سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها برقم: 492)
جبکہ اس موقف سے رجوع کرتے ہوئے البانی صاحب دوسری تصنیف میں لکھتے ہیں :
وهو مشرح بن هاعان، فقد أورده الذهبي في ” الضعفاء ” وقال:
” تكلم فيه ابن حبان “.
قلت: لكن وثقه ابن معين، وقال عثمان الدارمي: ” صدوق “.
وقال ابن عدي في ” الكامل ” (403/1) :
” أرجوأنه لا بأس به “.
قلت: فهو حسن الحديث إن شاء الله تعالى، وإنما علة هذا الحديث جهالة خالد بن
عبيد هذا.
جو کہ مشرح بن ھاعان ہے انکو امام ذھبی الضعفاء میں لائے ہیں
اور کہا کہ اس پر کلام ابن حبان نے کیا ہے
میں (البانی) کہتا ہوں ابن معین نے انکو ثقہ قرار دیا ہے اور الدارمی نے صدوق کہا ہے
اور ابن عدی نے کہا ہے کہ میرے خیال میں اسکو لینے سے کوئی حرج نہیں ہے
میں (البانی ) کہتا ہوں یہ حسن الحدیث راوی ہے ان شاءاللہ لیکن اس روایت میں جو علت ہے وہ خالد بن عبید کی ہے
(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة برقن:1266)
اور اسی طرح اس روایت کے تحت محقق علامہ شعیب الارنووط حکم لگاتے ہوئے لکھتے ہیں :
(1) إسناده حسن. أبو عبد الرحمن: هو عبد الله بن يزيد المقرئ، وحيوة: هو ابن شريح الحضرمي، وهما ثقتان، وبكر بن عمرو- وهو المعافري- ومشرح بن هاعان، كلاهما حسن الحديث.
وأخرجه يعقوب بن سفيان في “المعرفة والتاريخ” 1/462 و2/500، والترمذي (3686) ، وأبو بكر القطيعي في زياداته على “فضائل الصحابة” لأحمد (519) ، والطبراني في “الكبير” 17/ (822) ، والحاكم 3/85، واللالكائي في “شرح أصول الاعتقاد” (2491) ، والخطيب في “موضح أوهام الجمع والتفريق” 2/478 من طريق أبي عبد الرحمن عبد الله بن يزيد المقرئ، بهذا الإسناد. وقال الترمذي: حديث حسن غريب. وقال الحاكم: صحيح الإسناد، ووافقه الذهبي!
وأخرجه القطيعي (694) من طريق وهب الله بن راشد، عن حيوة بن شريح، به وأخرجه أيضا (498) ، والطبراني 17/ (857) من طريق يحيى بن كثير الناجي، عن ابن لهيعة، عن مشرح بن هاعان، به. وفي رواية الطبراني: أبو عشانة بدلا من مشرح.
وأخرجه ابن عدي في “الكامل” 3/1014 من طريق رشدين بن سعد، عن ابن لهيعة، عن مشرح بن هاعان، به. بلفظ: “لو لم أبعث فيكم نبيا لبعث عمر ابن الخطاب”. وقال ابن عدي: وهذا الحديث قلب رشدين متنه، وإنما متن هذا: “لو كان بعدي نبي لكان عمر بن الخطاب”.
وله شاهدان لا يفرح بهما: الأول من حديث عصمة بن مالك عند الطبراني في “الكبير” 17/ (475) ، والثاني من حديث أبي سعيد الخدري عنده في “الأوسط” كما في “مجمع البحرين” (3666) ، وكلاهما في إسناده من هو متهم بالوضع.
قال السندي: قوله “لكان عمر” أي: أنه أعطي من التوفيق للصواب وإلهامه ما يكاد يكون نبيا، إلا أنه ليس كذلك لانقطاع دائرة النبوة، ولولا انقطاعها لكان حقيقا بذلك، والله أعلم.
(مسند احمد حاشیہ شعیب الارونوط )
علامہ شعیب الارنووط اس روایت کی سند کو حسن قرار دیا ہے اور مشرح کے بارے کہتے ہین اس پر کلام ہے لیکن یہ حسن الحدیث ہے
خلاصہ تحقیق:
مشرح بن ھاعان جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق راوی ہے
اور اسکا تفرد مقبول ہے
اور ابن حبان اس پر منکر کی جرح کرنے میں تفرد ہے
اور امام ابن حجر و ابن حبان کے کلام کو کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا
محققین نے بھی
نیز امام احمد کی جرح ثابت نہیں نیز انکی جرح کے کلمات کے خلاف انہوں نے اس روایت کو کتب حدیث میں ختم کرنے کی بجائے نقل کیا ہے متعدد جگہ پر
تحقیق: دعاگو رانا اسد الطحاوی الحنفی البریلوی