تحریر: عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور

*مقام صحابہ و اہل بیت*

 

فلک تو پھر فلک ٹھہرا بندہ زمیں کا بھی نہیں رہتا

صحابہ و اہل بیت کو چھوڑ کر کہیں کا بھی نہیں رہتا

 

یاد رہے کہ کائنات کے اندر سب سے بڑا عہدہ نبوت کا ہے، زمانے بھر کے کھربوں عہدے مل کر بھی عہدہ نبوت کے سامنے بالکل ہیچ ہیں.

 

نبوت کے بعد انسانوں میں سب سے عظیم رتبہ ان ہستیوں کا ہوتا ہے جنہیں کسی بھی نبی پر براہ راست ایمان لانے، ان کی رفاقت و معیت میں رہنے اور ان کی نصرت و اعانت کا شرف حاصل ہوتا ہے .

 

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ نہ تو ہمارے آقا و مولا سیدنا محمد رسول اللہ جیسا نبی دنیا میں آیا اور نہ ہی آپ کے صحابہ و اہل بیت جیسا کوئی معاون دنیا میں آیا.

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاند کی مانند ہیں اور صحابہ و اہل بیت چاندنی کی مانند.. چاند چاندنی کے بغیر نہیں اور چاندنی چاند کے بغیر نہیں.. اگر کوئی کہے کہ میں چاند کو تو مانتا ہوں مگر چاندنی کو نہیں، تو وہ یہ کہہ کر در حقیقت خود چاند ہی کا منکر قرار پاتا ہے .

 

ہم اہل سنت و جماعت.. صحابہ و اہل بیت دونوں کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں اور ان کی شان میں ذرہ برابر بھی کمی لانا گوارا نہیں کرتے. جہاں بھی ہر دو ہستیوں کے بارے میں کوئی ہلکے بول بولتا نظر آئے تو ہم اپنے ایمان کی سلامتی کے لیے اس کا پوری شدت سے رد کرتے ہیں اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں.

 

صحابہ کرام ہمارا دماغ ہیں اور اہل بیت ہمارا دل … صحابہ مکہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اہل بیت مدینہ کی… صحابہ دین کا جسم ہیں اور اہل بیت اس کی روح… صحابہ عظمتوں کی دیوار ہیں اور اہل بیت اس میں چنا ہوا مسالہ.. صحابہ ستارے ہیں اور اہل بیت کشتی… صحابہ اسلام ہیں اور اہل بیت ایمان.

 

رسول اللہ نے جب تفرقہ کے پیچ و خم میں راہ حق کا تعین فرمایا تو ما انا علیہ و اصحابی کہہ کر اس کا تعین فرمایا ( یہی اسلام ہے) اور جب کسی شے کو مضبوط تھامنے کی بات کی تو قرآن و اہل بیت کی نشان دہی فرمائی. ( یہی ایمان ہے)

 

صحابہ و اہل بیت جہاز کے دو پروں کی مانند ہیں، اگر جہاز کا ایک بھی پر کٹ جائے یا اس میں کوئی خرابی پیدا جائے تو وہ بہر صورت زمیں بوس ہو کے رہتا ہے، پس جس شخص کا صحابہ و اہل بیت میں سے کسی ایک پر بھی ایمان متزلزل ہو گیا تو سمجھ لیجیے کہ وہ یقینی طور پر ہلاک ہو گیا.

 

ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے چار یاری بھی ہیں اور پنجتنی بھی.. جو چار یار کو نہیں مانتا وہ بھی اسلام کا دشمن ہے اور جو پنج تن کا منکر ہے وہ بھی دین کا غدار ہے.

 

چار یار دین کی عمارت کے چار ستون ہیں ، ان میں سے کسی ایک بھی ستون کو کمزور کرنا دراصل اسلام کو کمزور کرنا ہے جبکہ پنج تن اس مقدس عمارت کی بنیادیں ہیں، ان میں سے کسی ایک بھی بنیاد کو ہلانا دراصل سارے اسلام کو ہلانا ہے.

 

قرآن حکیم میں صحابہ کرام کے بھی روح پرور تذکرے چھیڑے گئے ہیں اور اہل بیت کے بھی.. پہلے ہم صحابہ کے حوالے سے ایک آیت کریمہ کا تذکرہ کرتے ہیں.

 

ارشاد ربانی ہے : لَا یَسْتَوِیۡ مِنۡکُمْ مَّنْ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ( الحدید)

 

یہ آیت کریمہ شان صحابہ کے حوالے سے معجزانہ بلاغت کی حامل ہے… *لا یستوی* سے اس کا آغاز ہے اور الحسنی پہ اختتام .. *لا یستوی* میرے رب کی شان عدل کا اظہار ہے اور *الحسنی* اس کی شان فضل کا… قبل از فتحِ مکہ ایمان لانے والے صحابہ کرام کو رب کریم نے *اولئک اعظم درجۃ* کا بلند و بالا مقام عطاء فرما کر ان کے اور بعد والوں کے درمیان عدم استواء کی حد فاصل قائم فرما دی.

 

تقاضائے عدل بھی یہی تھا کہ جو شخصیات اعلان نبوت سے لے کر اب تک اسلام و پیغمبر اسلام کے خلاف لڑتی رہیں اور اس کا سر نگوں کرنے کے لیے کوشاں رہیں، آج فتح مبین کے بعد اگر انہیں ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے تو ان کے مقابلے میں ان ہستیوں کی شان وراء الوراء ہو جو شروع سے ہی قدم قدم پر رسول اللہ پہ اپنا تن من دھن قربان کرتی رہیں.

 

پھر آیت کے آخر میں رب کریم نے *و کلا وعد اللہ الحسنی* ارشاد فرما کر اجتماعی طور پر اول و آخر سب ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سروں پر قطعی جنتی ہونے کا تاج سجا دیا..

پس اب قیامت تک ہر اہل ایمان کے لیے لازم ہو گیا کہ شان صحابہ کی بات کرتے ہوئے ایک طرف تو وہ عدم استواء کی نص قطعی کو ملحوظ خاطر رکھے اور السابقون الاولون کی افضلیت کے بڑھ چڑھ کر چرچے کرے.. جبکہ دوسری طرف جمیع صحابہ کے لیے وعدہ جنت کی نص قطعی کو ملحوظ خاطر رکھے اور کسی ایک بھی صحابی کی شان میں ذرہ برابر بھی کسر نہ لائے.

 

یہاں تک تو شان صحابہ کا ذکر تھا، اب ہم ذکر اہل بیت کی طرف آتے ہیں، اگر اہل بیت کی شان دیکھنی ہے تو نماز پڑھو، جس کی آل محمد پہ درود بھیجے بغیر تکمیل ہی نہیں ہوتی..

مزید یہ کہ اہل بیت کے لیے از روئے قرآن جو چیز سب سے بڑھ کر مطلوب ہے وہ ان سے ٹوٹ کر پیار کرنا ہے. ارشاد ربانی ہے : *قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی*.

 

آیت کریمہ کا لفظ *قل* سے آغاز ہی کمال محبت کا اظہار ہے یعنی اے محبوب! میری بات اپنی پیاری زبان سے کہہ دیجیے.. کہ میں نے جو طرح طرح کی قربانیاں دے کر اسلام جیسی نعمت عظمیٰ تم تک پہنچائی ہے، اس پر میں تم سے کسی قسم کی اجرت کا طلب گار نہیں ہوں (اور نہ ہی تم اس کا کچھ اجر دے سکتے ہو) البتہ اجرت کی بجائے مقام اجرت پر تم سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ میری اہل بیت سے ایسا پیار کرنا کہ دنیا عشق و محبت کی ساری داستانیں بھول جائے.

یہاں محبۃ کا لفظ بھی آ سکتا تھا لیکن رب تعالیٰ نے مودۃ کا لفظ بول کر کمال عشق و محبت کا پیغام دیا.

 

آج ہمارے درمیان صحابہ کرام تو جسمانی طور پر موجود نہیں ہیں لیکن اہل بیت موجود ہیں، سرکار کی آل پاک کی بھرپور عزت و توقیر اجل فرائض شرعیہ میں سے ہے. پس اس میں دانستہ و نادانستہ کمی لانے والا ایک بہت بڑے فرض کا تارک اور ایمانِ خالص سے محروم شخص ہے. ایسے شخص کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے.

 

یاد رہے کہ صحابہ دشمنی کا دوسرا کا نام رافضیت ہے،جبکہ اہل بیت دشمنی کا دوسرا نام یزیدیت ہے.

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اہل بیت کے سب سے بڑے دشمن کا نام یزید تھا. اسی لیے ہم اہل اسلام ہمیشہ اسے *یزید پلید* کے نام سے یاد کرتے ہیں.

حقیقی اور خالص اسلام کی پہچان تاج دار کربلا سیدنا امام حسین کی ذات والا صفات سے ہے جبکہ وہ اسلام جس میں یزید کے لیے بھی تھوڑی بہت گنجائش ہو وہ ملاوٹ زدہ اسلام ہے.. ہم اس سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں.

 

یزید حسین سے ٹکرا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہالت، ضلالت، لعنت، ذلت اور عبرت کا نشان بن گیا، جبکہ حسین اپنے عظیم ساتھیوں کے ہم راہ، حق کی خاطر، لا زوال قربانی دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حق و صداقت کی بنیاد بن گیا.

اگر کچھ تجربہ مقصود ہو تو قریبی چوک پہ ٹھہر کر کسی آج ہی کے یزید کو یزید کہہ کر دیکھو،لگ پتہ جائے گا… اور اسی چوک پر ہی کسی یزید ہی کو حسینی کہہ کر دیکھو،وہ خوشی سے پھولا نہ سمائے گا.

 

مزید یہ کہ اگر کہیں کوئی شخص آپ کو یزید کی وکالت کرتا نظر آئے تو اسے ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دیجیے.

تو یزید، تیرا باپ یزید، تیری ماں یزید، تیرا بھائی یزید، تیری بہن یزید، تیرا دادا یزید، تیری دادی یزید، تیرا نانا یزید ،تیری نانی یزید ،تیرا سارا خاندان یزید.

 

اور اپنا نام سینہ تان کر سب کے سامنے کہیں..

میں حسینی ، میرا باپ حسینی، میری ماں حسینی ، میرا بھائی حسینی ، میری بہن حسینی ، میرا دادا حسینی، میری دادی حسینی، میرا نانا حسینی، میری نانی حسینی، میرا سارا خاندان حسینی.

اسلام دودھ کی مانند ہے اور اس میں یزید کا وجود پیشاب کے قطرے کی مانند ہے.