میز پر اور ٹیک لگا کر کھانا کھانا

 

امام اہل سنت فرماتے ہیں: ٹیک لگا کر کھانا اگر بہ نیت تکبر ہو تو کراہت کیسی؟ حرام ہے۔قال تعالٰی: الیس فی جھنم مثوی المتکبرین۔

اللہ تعالٰی نے فرمایا : کیا دوزخ تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا نہیں (یعنی یقینا ہے)۔

( القرآن الکریم ۳۹/ ۶۰)

 

ورنہ بلا کراہت درست بعض اوقات حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بھی اس کا فعل مروی،

فقد اخرج ابو نعیم عن عبدﷲ بن السائب عن ابیه عن جدہ وقال ھو وھم والصواب ابن عبدﷲ بن السائب عن ابیه عن جدہ رضیﷲ تعالٰی عنهما قال رأیت النبی صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم یأکل ثریدا متکئا علی سریر ثم یشرب من فخارۃ۔

 

بیشک عبداللہ بن سائب سے بواسطہ اپنے باپ اپنے دادا، محدث ابونعیم نے اس کو تخریج کیا اور فرمایا۔ یہ وہم ہے ٹھیک یوں ہے ابن عبداللہ بن سائب عن ابیہ عن جدہ (رضی الله تعالٰی عنہما) فرمایا میں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تخت پر تکیہ لگائے کھانا (ثرید) کھاتے ہوئے دیکھا پھر پختہ مٹی کے برتن سے پانی پیتے ہوئے بھی دیکھا۔

(ابونعیم)

 

ہاں عادت کریمہ زمین پر دسترخوان بچھا کر کھانا تناول فرمانا تھی اور یہی افضل، اخرج الامام احمد فی کتاب الزھد عن الحسن مرسلا والبزار نحوہ عن ابي ھریرۃ رضی ﷲ تعالٰی عنه کان رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم اذا اتی بطعام وضعه علی الارض (۲) واخرج الدیلمی فی مسند الفردوس عنه رضی ﷲ تعالٰی عنه یرفعه الی النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم صنعها علی الحضیض ثم قال انما انا عبد اٰکل کما یاکل العبد واشرب کما یشرب العبد (۳)، واخرج الدارمی و الحاکم وصححه واقروہ عن انس رضی ﷲ تعالٰی عنه قال قال النبی صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم اذا وضع الطعام فاخلعوا نعالکم فانه اروح لاقدامکم(٤) واخرجه ابویعلی بمعناہ وزاد وھو السنة.

 

امام احمد نے کتاب الزہد میں امام حسن سے بغیر سند (یعنی مرسلا) تخریج فرمائی، محدث بزار نے اسی کی مثل ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عن سے تخریج فرمائی، جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا لایا جاتا تو آپ اسے زمین پر خود رکھ دیتے، محدث دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مرفوعا تخریج فرمائی یعنی حضرت ابوہریرہ نے حضور اقدس سے روایت کی حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا طریقہ کار یہ تھا کہ کھانا زمین پر رکھ کر خود زمین پر بیٹھ جاتے اور فرماتے میں ایک بندہ ہوں اس لئے اس طریقے سے کھاتا اور پیتا ہوں جس طریقے سے ایک غلام یعنی بندہ کھاتا اور پیتا ہے۔ نیز دارمی اور حاکم نے تخریج کی اور اسے صحیح قرار دیا، اور انھوں نے اسے ثابت رکھا اور حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کھانا رکھا جائے تو اپنے جوتے اتار دو کیونکہ ایسا کرنا تمھارے قدموں کے لئے زیادہ باعث راحت ہے اور ابو یعلٰی نے اس مفھوم کی تخریج کی البتہ اس میں یہ اضافہ کیا کہ یہ سنت ہے۔

 

(۲) الزھد الاحمد بن حنبل درالدیان للتراث القاہرہ ص۱۱)

(٣) اتحاف السادۃ بحوالہ الدیلمی عن ابی ھریرۃ ۸ /۳۹۳ وا بن عدی فی الکامل دارالفکر بیروت ۵ /۱۹۷۱)

(٤) سنن الدارمی کتاب الاطعمۃ باب خلع النعال عند الاکل دارالمحاسن القاہرۃ ۲ /۳۴)

 

شرعة الاسلام اور اس کی شرح میں ہے : (وضع الطعام علی الارض احب الی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم علی السفرۃ وھی) ای والحال ان السفرۃ (علی الارض) لا علی شیئ اٰخر فوق الارض (٥)

 

دسترخوان پر کھانا رکھ کر کھانا آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو زیادہ پسند تھا اور حالت یہ ہوتی تھی کہ دسترخوان زمین پر بچھا ہوتا تھا نہ کہ کسی اور چیز پر جو زمین کے اوپر ہو۔

 

(٥) شرح شرعۃ الاسلام لسید علی زادہ فصل فی سنن الاکل والشرب مکتبہ اسلامیہ کانسی روڈ کوئٹہ ص۲۴۳)

 

عین العلم اور اس کی شرح میں ہے :(یاکل علی السفرۃ الموضوعة علی الارض) فھو اقرب الی ادبه علیہ الصلٰوۃ والسلام و تواضعه لمقام الانعام (فالخوان والمنحل والاشنان والشبع من البدع وان لم تکن مذمومات غیر الشبع)فانه مذموم (٦) اھ مختصر۔

وﷲ تعالٰی اعلم۔

 

حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام اس دسترخوان پر کھانا تناول فرماتے جو زمین پر بچھا ہوتا پس مقام انعام میں یہ چیز حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ادب اور تواضع کے زیادہ قریب ہے لہذا دسترخوان بچھانا جو زمین کی بجائے کسی اور چیز پر بچھا ہویہ آپ کو ناپسند تھا۔ چھلنی سے چھانا ہوا آٹا، اشنان، (خوشبودار گھاس) اور سیر ہو کر کھانا یہ سب بدعات میں سے ہیں (یعنی سنت میں شامل نہیں) اگر چہ سیری کے علاوہ باقی کام مذموم نہیں البتہ سیری مذموم ہے۔ اھ مختصر۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

 

(٦) شرح عین العلم لملا علی قاری الباب السابع مطبع السلامیہ لاہور ص)

 

(فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 624 تا 624 اپلیکیشن)

 

ابو الحسن محمد شعیب خان

8 اگست 2020