اَنّٰى لَهُمُ الذِّكۡرٰى وَقَدۡ جَآءَهُمۡ رَسُوۡلٌ مُّبِيۡنٌۙ ۞- سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 13
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَنّٰى لَهُمُ الذِّكۡرٰى وَقَدۡ جَآءَهُمۡ رَسُوۡلٌ مُّبِيۡنٌۙ ۞
ترجمہ:
اب ان کے نصیحت قبول کرنے کا وقت کہاں ہے، حالانکہ ان کے پاس واضح ہدایت دینے والے رسول آچکے تھے
الدخان : ١٤۔ ١٣ میں فرمایا : اب ان کے نصیحت قبول کرنے کا وقت کہاں ہے، حالانکہ ان کے پاس واضح ہدایت دینے والے رسول آچکے تھے پھر انہوں نے اس رسول سے اعراض کیا اور کہا : یہ سکھائے ہوئے دیوانے ہیں “
عذاب آچکنے کے بعد نصحت کے قبول کرنے کا موقع نہیں ہوتا، کیونکہ ایمان وہ معتبر ہوتا ہے جو بن دیکھے ہو اور جب غیب مشاہد ہوجائے تو پھر ایمان کا اعتبار نہیں ہوتا اور ان کے پاس رسول آچکے ہیں اور انہوں نے رسول سے اعراض کیا تھا۔
حضرت ابن عباس نے کہا : وہ کب نصیحت کو قبول کریں گے، اللہ تعالیٰ نے ان کو نصیحت قبول کرنے سے دور کردیا، کیونکہ انہوں نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے پیغام سے اعراض کیا اور آپ کی تکذیب کی اور جب کل وہ کل عذاب کا ظہور دیکھ لیں گے یا قیامت کی علامت کو دیکھ لیں گے تو پھر کہیں گے : بیشک ہم ایمان لانے والے ہیں لیکن جب عذاب یا قیامت کی علاموں کو دیکھ لیا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی معرفت ضروری اور بد یہی ہوجاتی ہے اور اس میں انسان کی آزمائش کا کوئی دخل نہیں ہوتا اور ایسا ایمان اللہ سبحانہ ‘ کے نزدیک مقبول نہیں ہے اور ان کافروں نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کہا کہ یہ سکھائے ہوئے ہیں اور لوگوں نے ان کو سکھایا اور پڑھایا ہے، تب ہی یہ قرآن مجید کی آیتیں بناتے ہیں یا ان کو جنات اور کاہنوں نے سکھایا پڑھایا ہے، پھر یہ دوانے ہیں اور یہ رسول نہیں ہیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 13
[…] تفسیر […]