أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَنۡ اَدُّوۡۤا اِلَىَّ عِبَادَ اللّٰهِ‌ؕ اِنِّىۡ لَـكُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِيۡنٌۙ‏ ۞

ترجمہ:

کہ اللہ کے بندوں (بنواسرائیل) کو میرے سپرد کردو، بیشک میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور قوم فرعون کا ماجرا

الدخان : ١٩۔ ١٨ میں فرمایا : (اس معزز رسول نے کہا :) کہ اللہ کے بندوں (بنواسرائیل) کو میرے سپرد کردو، بیشک میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں اور یہ کہ تم اللہ کے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو، بیشک میں تمہارے پاس واضح دلیل لایا ہوں “

مجاہد نے کہا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ تم میرے ساتھ اللہ کے ان بندوں کو بھیج دو اور تم نے ان کو غلام بنا کر ان کو جس جسمانی مشقت اور عذاب میں ڈال رکھا ہے اس سے ان کو نجات دے دو ، ایک قول یہ ہے کہ تم غور کے ساتھ میری بات سنو حتیٓ کہ میں تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچائوں اور کہا : میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں، یعنی میں اللہ سبحانہ ‘ کے پیغام اور اس کی وحی پرامین ہوں، سو تم میری نصیحت کو قبول کرو۔

اس کے بعد فرمایا : اور تم اللہ کے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو اور اس کی اطاعت کرنے سے اعراض نہ کرو۔ قتادہ نے کہا : اس کا معنی ہے : تم اللہ کے خلاف بغاوت نہ کرو، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس کا معنی ہے : تم اللہ کے خلاف افتراء میں یہ فرق ہے کہ بغاوت فعل سے ہوتی ہے اور افتراء قول سے ہوتا ہے۔ ابن جریج نے کہا : اس کا معنی ہے : اللہ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بڑا نہ قرار دو ، یحییٰ بن سلام نے کہا : اللہ کی عبادت کرنے سے تکبر نہ کرو، تعظیم اور تکبر میں یہ فرق ہے کہ تعظیم کا معنی ہے : خود کو بڑا سمجھنا اور تکبر کا معنی ہے : دوسروں کو حقیر جاننا اور اس رسول نے کہا : بیشک میں تمہارے پاس واضح دلیل لایاں ہوں، یعنی معجزات لایا ہوں۔

القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 18