أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَهُمۡ خَيۡرٌ اَمۡ قَوۡمُ تُبَّعٍۙ وَّ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ؕ اَهۡلَكۡنٰهُمۡ‌ۖ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا مُجۡرِمِيۡنَ ۞

ترجمہ:

کیا یہ لوگ بہتر ہیں یا قول تبع کے لوگ اور وہ جو ان سے بھی پہلے تھے، ہم نے ان کو ہلاک کردیا تھا، بیشک وہ مجرمین تھے

الدخان : ٣٧ میں فرمایا : ” کیا یہ لوگ بہتر ہیں یا قول تبع کے لوگ اور وہ جو ان سے بھی پہلے تھے، ہم نے ان کو ہلاک کردیا تھا، بیشک وہ مجرمین تھے “ یہ استفہام انکا ہے، یعنی وہ قوم تبع سے بہتر نہیں ہیں اور وہ اپنے اس قول کی وجہ سے عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں کیونکہ وہ قوم تبع اور دیگر ہلاک شدہ اقوام سے بہتر نہیں ہیں اور جب ہم ان قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں تو ان کو ہلاک کردینا بھی مستبعد نہیں ہے۔ اس آیت کی دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے کہ کیا ان کے پاس دنیا کی نعمتیں اور مال واسباب زیادہ ہیں یا قوم تبع زیادہ نعمتوں والی تھی یا یہ زیادہ طاقت ور اور مستحکم ہیں یا قوم تبع زیادہ طاقتور اور قوی تھی۔

تبع اور اس کی قوم کا بیان

امام ابو جعفر محمد بن جبریر طبری متوفی ٣١٠ ھ قتادہ سے روایت کرتے ہیں :

ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ تبع قبیلہ حمیر کا ایک شخص تھا، وہ اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہوا حتیٰ کہ اس نے یمن کو عبور کرلیا، پھر شہروں کو فتح کرتا ہوا اور تخت و تاراج کرتا ہوا سمر قند تک پہنچا اور اس کو بھی منہدم کردیا اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ جب یہ کوئی چیز لکھتا تو اس کے نام سے لکھتا جو بہت بلند ہے اور بحرو بر کا مالک ہے اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ تبع کو بُرا نہ کہو، وہ نیک آدمی تھا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٠٨٩ دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حافظ ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر المتوفی ٥٧١ ھ لکھتے ہیں : تبع کا پورا نام اس طرح ہے : تبع بن حسان بن ملکی کرب بن تبع بن الاقرن۔

حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تبع کو بُرا نہ کہو بیشک وہ مسلمان ہوچکے تھے۔ (تاریخ دمشق رقم الحدیث : ٢٦٥٨۔ ٢٦٥٧۔ ٢٦٥٦ )

قتادہ نے الدخان : ٣٧ کی تفسیر میں کہا : حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : تبع نیک آدمی تھا، کعب نے کہا : اللہ تعالیٰ اے اس کی قوم کی مذمت کی ہے، اس کی مذمت نہیں کی۔ (تاریخ دمشق ج ١١ ص ٧٢)

کعب احبار نے الدخان : ٣٧ کی تفسیر میں کہا : قرآن مجید میں تبع کی قوم کا ذکر ہے اور تبع کا ذکر نہیں ہے، انہوں نے کہا : تبع بادشاہ تھا اور اس کی قوم کاہن تھی اور اس کی قوم میں اہل کتاب بھی تھے اور کاہن اہل کتاب کے خلاف سرکشی کرتے رہتے تھے۔ اہل کتاب نے تبع سے کہا : یہ ہم پر جھوٹ بولتے ہیں، تبع نے کہا : اگر تم سچے ہو تو دونوں فریق قربانی پیش کریں، جو فریق بھی سچا ہوگا، آگ اس کی قربانی کو کھالے گی، پھر اہل کتاب اور کاہنوں دونوں نے قربانی پیش کی، پھر آسمان سے ایک آگ نازل ہوئی اور اس نے اہل کتاب کی قربانی کو کھالیا، پھر تبع اہل کتاب کے تابع ہو کر مسلمان ہوگیا، سو اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تبع کی قوم کا ذکر کیا ہے اور تبع کا ذکر ہیں کیا۔ (تاریخ دمشق ج ١١ ص ٧٢)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ تبع کعبہ پر حملہ کرنے کا ارادہ سے نکلا حتیٰ کہ جب وہ کراع الغمیم پر پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک زبردست آندھی بھیج دی جس کے زور سے لوگ ایک دوسرے پر گر رہے تھے، پھر تبع نے اپنے دو عالموں کو بلا کر پوچھا کہ یہ میرے خلاف کیا چیز مسلط کی گئی ہے، انہوں نے کہا : اگر تم ہمیں جان کی امان دو تو ہم تمہیں بتاتے ہیں، تبع نے کہا : تم کو امان ہے، انہوں نے کہا : تم اس گھر پر حملہ کرے گا، تبع نے کہا : پھر مجھے اس کے قہر سے کیا چیز بچا سکتی ہے ؟ انہوں نے کہا : تم احرام باندھ کر اس کے گھر میں اللہم لبیک کہتے ہوئے داخل ہو اور اس کے گھر کا طواف کرو، جب تم نے اخلاص سے اس پر عمل کیا تو یہ آندھی کا طوفان فرو ہوجائے گا، تبع نے اسی طرح کیا، پھر آندھی کا طوفان وہاں سے گزر گیا۔ (تاریخ دمشق ج ١١ ص ٧٣۔ ٧٢)

تبع نے کہا : میری نیت تھی کہ میں اس گھر کو ویران کردوں گا، اس شہر کے مردوں کو قتل کروں گا اور عورتوں کو قید کروں گا، اس کے بعد وہ ایسے مرض میں مبتلا ہوگیا کہ تمام دنیا کے حکماء سر توڑ کر کوشش کے باوجود اس کا علاج نہ کرسکے، پھر اس کے پاس ایک عالم نے آکر کہا : تمہاری بیماری کی ساری جڑ تمہاری اس نیت کے فساد میں ہے، اس گھر کا مالک بہت قوی ہے، دلوں کی باتیں جانتا ہے، پس ضروری ہے کہ تم اس گھر کو نقصان پہنچانے کا ارادہ اپنے دل سے نکال دو ، تبع نے کہا : میں نے ایسی تمام باتیں دل سے نکال دیں اور میں نے یہ عزم کرلیا کہ میں ہر قسم کی خیر اور نیکی اس گھر کے ساتھ اور یہاں کے رہنے والوں کے ساتھ کروں گا، ابھی وہ نصیحت کرنے والا عالم اس کے پاس سے اٹھ کر نہیں گیا تھا کہ وہ بالکل تندرست ہوگیا اور اللہ عزوجل نے اس کو شفایاب کردیا، اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کو قبول کرلیا اور صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے گھر پہنچ گیا اور تبع وہ پہلا شخص ہے جس نے کعبہ کو غلاف پہنایا اور اہل مکہ کعبہ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا۔ (تاریخ دمشق ج ١١ ص ٧٥۔ ٧٤)

پھر تبع مدینہ منورہ گیا اور وہاں سے ہندوستان کے کسی شہر میں چلا گیا اور وہیں فوت ہوگیا اور تبع کی وفات کے ٹھیک ایک ہزار سال بعد ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ہوئی اور جن اہل مدینہ نے ہجرت کے وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کی تھی وہ سب ان علماء کی اولاد سے تھے جو مدینہ میں تبع کے بنائے ہوئے گھروں میں رہتے تھے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ پہنچے تو وہ لوگ آپ کی اونٹنی کے گرد آکر اکٹھے ہوگئے اور آپ کو اپنے گھر لے جانے پر اصرار کرنے لگے، آپ نے فرمایا : اس اونٹنی کو چھوڑ دو ، یہ اللہ سبحانہ ‘ کے حکم کی پابند ہے، حتیٰ کہ وہ اونٹنی حضرت ابوایوب انصاری (رض) کے گھر کے پاس آکر بیٹھ گئی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے گھر میں قیام پذیر ہوئے اور حضرت ابو ایوب انصاری (رض) ، اس عالم کی اولاد سے تھے جس نے خیر خواہی کے جذبہ سے تبع کو نصیحت کی تھی اور اس کو کعبہ کو منہدم کرنے کا ارادہ سے باز رکھا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابو ایوب کے جس گھر میں ٹھہرے تھے یہ تبع ہی کا بنایا ہوا تھا۔ (رقم الحدیث : ٢٦٦١) (تاریخ دمشق الکبیر ج ١١ ص ٧٧۔ ٦٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

تبع سے مراد ایک معین شخص نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یمن کے بادشاہ ہیں اور یمن کے لوگ اپنے بادشاہ کو تبع کہتے تھے۔ پس تبع ان کے بادشاہ کالقب ہے، جیسے مسلمانوں کے بادشاہ کو خلیفہ کہتے ہیں اور ایران کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے ہیں اور روم کے بادشاہ کو قیصر کہتے ہیں اور قرآن مجید کی آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تبع ایک معین شخص کا نام ہے، امام احمد نے حضرت سہل بن سعد سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : تبع کو بُرا نہ کہو، وہ مومن تھا۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٢٢٩٤٣، دارالفکر) اس نے پہلے مدینہ منورہ کو برباد کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن اس کو معلوم ہوا کہ یہ ایک نبی کی ہجرت ہے جس کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا تو یہ واپس ہوگیا۔ لیکن جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ ایک نبی کی ہجرت کی جگہ ہے جس کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا تو یہ واپس ہوگیا۔ زجاج، ابن ابی الدنیا اور زمخشری وغیرھم نے کہا ہے کہ صنعاء میں اس کی قبر ہے، امام ابن اسحاق وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ اس نے اپنے وارثوں کے پاس کے جو کتاب رکھوائی تھی اس میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق لکھا تھا : میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کی کتاب پر ایمان لایا اور آپ کے دین پر ایمان لایا اور آپ کی سنت پر اور آپ کے رب پر ایمان لایا، جو ہر چیزکارب ہے اور شرائع اسلام میں سے ہر اس چیز پر ایمان لایا جو آپ کے رب کے پاس سے آئی ہے، اگر میں نے آپ کو پالیا تو فبہا اور اگر میں آپ کو نہ پاسکا تو آپ میری شفاعت کریں اور قیامت کے دن مجھ کو نہ بھولیں کیونکہ میں آپ کی پہلی امت سے ہوں اور آپ کی بعثت سے پہلے میں نے آپ کی بعیت کرلی ہے اور میں آپ کی ملت پر ہوں اور آپ کے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پر، ہوں، پھر اس مکتوب کو ختم کرکے اس پر اپنی مہر لگادی اور اس مکتوب کے شروع میں بطور عنوان لکھا تھا ”(سیدنا) محمد بن عبداللہ نبی اللہ و رسول اللہ، خاتم النبیین و رسول رب العٰلمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب تبع الاول کی طرف سے ” اہل یمن الدخان : ٣٧ کی وجہ سے فخر کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل یمن کو قریش سے بہترقرار دیا ہے، اس نے لشکر کے ساتھ مشرق کی جانب سفر کیا اور حیرہ کو عبور کرکے سمر قندتک پہنچا اور بہت سے شہروں کو منہدم کیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے ٹھیک ایک ہزار سال پہلے اس کی وفات ہوئی تھی۔ (یہ احوال تاریخ دمشق میں بھی مذکور ہیں) ۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٣٦۔ ١٤٣، دارلفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 37