اِنَّا كَاشِفُوا الۡعَذَابِ قَلِيۡلًا اِنَّكُمۡ عَآئِدُوۡنَۘ ۞- سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 15
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّا كَاشِفُوا الۡعَذَابِ قَلِيۡلًا اِنَّكُمۡ عَآئِدُوۡنَۘ ۞
ترجمہ:
(اگر) ہم کچھ وقت کے لیے عذاب کو دور کردیں تو بیشک تم پھر (کفر کی طرف) لوٹنے والے ہو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(اگر) ہم کچھ وقت کے لیے عذاب کو دور کردیں تو بیشک تم پھر (کفر کی طرف) لوٹنے والے ہو بیشک ہم اس سے پہلے فرعون کی قوم کو آزما چکے ہیں، ان کے پاس معزز رسول آئے تھے کہ اللہ کے بندوں (بنواسرائیل) کو میرے سپرد کردو، بیشک میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں اور یہ کہ تم اللہ کے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو، بیشک میں تمہارے پاس واضح دلیل لایا ہوں اور بیشک میں تمہارے سنگسار کرنے سے اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ میں آچکا ہوں (الدخان :15-20)
دھوئیں کی دو تفسیروں کے محامل
اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ اللہ سبحانہ ‘ کو علم ہے کہ انہوں نے جو عذاب دیکھتے وقت وعدہ کیا ہے کہ اگر ان سے عذاب دور کردیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے یہ اپنا وعدہ پورا نہیں کریں گے بلکہ عذاب کے ٹلتے ہی پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے کہا : جب کفار قریش پر قحط کا عذاب مسلط کیا گیا تو انہوں نے وعدہ کیا کہ اگر ان سے قحط کا عذاب دور کردیا گیا اور بارش نازل ہوگئی تو وہ ایمان لے آئیں گے، لیکن جیسے ہی ان سے قحط دور ہوا اور بارش ہوگئی تو یہ پھر اپنے سابق کفر کی طرف لوٹ گئے۔
اور جنہوں نے یہ کہا کہ دھویں سے مراد قیامت کی نشانی ہے اور قیامت آنے سے پہلے آسمان پر دھواں چھا جائے گا انہوں نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : اگر بالفرض ہم تم سے عذاب دور کردیں تو تم پھر کفر کی طرف پلٹ جائو گے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی ہے : بیشک تم مرنے کے بعد ہماری طرف لوٹنے والے ہو اور ایک قول یہ ہے کہ تم دوزخ کے عذاب کی طرف لوٹنے والے ہو۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 15