أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ هٰٓؤُلَاۤءِ لَيَقُوۡلُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

بیشک یہ لوگ ضرور کہیں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

بے شک یہ لوگ ضرور کہیں گے ہماری صرف یہی موت ہے جو دنیا میں پہلی بار آئی تھی اور ہمارا حشر نہیں کیا جائے گا اگر تم سچے ہو تو ہمارے (مرے ہوئے) باپ داداکو لے کر آئو کیا یہ لوگ بہتر ہیں یا قول تبع کے لوگ اور وہ جو ان سے بھی پہلے تھے، ہم نے ان کو ہلاک کردیا تھا، بیشک وہ مجرمین تھے اور ہم نے آسمانوں اور زمینوں کو اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو بطور کھیل کے نہیں پیدا کیا ہم نے ان کو صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (الدخان 34-39)

یہ کہنے والے کفار قریش تھے جو صرف اسی دنیا کی زندگی کے قائل تھے اور اسی دنیا میں آنے والی موت کے قائل تھے اور حشر اور نشر کا اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے اور میدان محشر میں جمع کیے جانے کا انکار کرتے تھے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہتے تھے کہ اگر لوگ واقعی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے تو آپ ہمارے مرے ہوئے باپ دادا کو زندہ کرکے دکھائیں۔

کفار کے مطالبہ پر ان کے مرے ہوئے باپ داداکو کیوں نہیں زندہ کیا گیا، الماوردی اور القرطبی کا جواب

علامہ علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :

اس قول کا قائل ابوجہل تھا، اس نے کہا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) اگر آپ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہمارے مرے ہوئے آباء میں سے دو آدمیوں کو زندہ کرکے دکھائیں، ان میں سے ایک قصی بن کلاب ہے وہ سچا آدمی تھا، ہم اس سے پوچھیں گے کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ ابوجہل کا یہ کہنا بہت ضعیف شبہ تھا، کیونکہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا جزاء اور سزا کے لیے ہوتا ہے، مکلف کرنے کے لیے نہیں ہوتا اور اس کے قول کا منشاء یہ تھا کہا گر آپ مردوں کو زندہ کرنے کے دعویٰ میں سچے ہیں تو ان کو مکلف کرنے کے لیے زندہ کریں اور یہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر ہمارے بعد ہمارے بیٹے دنیا میں آئیں گے تو پھر ہمارے مرے ہوئے باپ دادا ہی واپس کیوں نہیں آجاتے اس جواب کو علامہ قرطبی نے بھی نقل کیا ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٥٥، دارالکتب العلمیہ، بیروت، الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٣٤)

اعتراض مذکور کا جواب مصنف کی جانب سے

اس شبہ کے جواب میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر کفار کا مطالبہ پر ان کے فرمائشی مُردوں کو زندہ کردیا جاتا تو پھر ان کا ایمان بالغیب نہ رہتا اور مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خبروں پر بن دیکھے ایمان لایا جائے، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ان کے پچھلے آبائو اجداد کو زندہ کردیا جاتا اور وہ آکر ان کو موت کے بعد کے احوال بتاتے تو پھر اللہ کی خبروں پر ایمان لانے میں ان کی عقل کی کوئی آزمائش اور امتحان نہ ہوتا اور مقصود یہ ہے کہ انسان اپنی عقل سے اللہ تعالیٰ کو پہچانے اور اس کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کرے، اسی لیے قرآن مجید میں بار بار بیان فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابتداء اس ساری کائنات کو پیدا فرمایا ہے تو پھر وہ دوبارہ انسانوں کو کیوں نہیں پیدا فرما سکتا اور کسی چیز کا ابتداء پیدا کرنا مشکل ہوتا ہے اور اس کو دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا، بلکہ نسبتاً آسان ہوتا ہے تو جب تم یہ مانتے ہو کہ اس کائنات کو ابتداء اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے تو یہ کیوں نہیں مانتے کہ وہ دوبارہ بھی اس کائنات کو پیدا کرنے پر قادر ہے اور اس شبہ کا تیسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ قدیمہ یہ ہے کہ جب وہ کافروں کی فرمائش پر کسی معجزہ کو ظاہر فرماتا ہے اور پھر بھی وہ قوم ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر عام عذاب نازل کر کے اس قوم کو جڑ سے اکھاڑ دیتا ہے اور اس قوم کا نام ونشان تک مٹا دیتا ہے جیسا کہ قوم ثمود کی فرمائش پر ایک چٹان سے اونٹنی نکالی اور جب انہوں نے اس اوانٹنی کو ہلاک کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر عام اور ہمہ گیر عذاب نازل فرما کر اس قوم کو ہلاک کرڈالا اور اللہ تعالیٰ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرما چکا ہے کہ آپ کے ہوتے ہوئے ان لوگوں کو عام عذاب نازل نہیں فرمائے گا :

وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم۔ (الانفال :33)

اور اللہ کی یہ شان نہیں ہے کہ اللہ اس حال میں ان پر عذاب نازل فرمائے کہ آپ ان میں موجود ہوں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 34