فَارۡتَقِبۡ يَوۡمَ تَاۡتِى السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِيۡنٍۙ ۞- سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 10
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَارۡتَقِبۡ يَوۡمَ تَاۡتِى السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِيۡنٍۙ ۞
ترجمہ:
سو آپ اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان واضح دھواں لائے گا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
سو آپ اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان واضح دھواں لائے گا جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا، یہ ہے درد ناک عذاب (اس دن وہ کہیں گے :) اے ہمارے رب ! ہم سے اس عذاب کو دور کردے، بیشک ہم ایمان لانے والے ہیں اب ان کے نصیحت قبول کرنے کا وقت کہاں ہے، حالانکہ ان کے پاس واضح ہدایت دینے والے رسول آچکے تھے پھر انہوں نے اس رسول سے اعراض کیا اور کہا : یہ سکھائے ہوئے دیوانے ہیں (الدخان : 10-14)
آسمان کے دھواں لانے سے مراد ہے : قرب قیامت میں دھویں کا ظاہر ہونا
قتادہ نے کہا : اس آیت کا معنی ہے : یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کافروں کے ساتھ اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان پر واضح دھواں چھا جائے گا۔
ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی ہے : آپ کافروں کے اقوال کو یاد رکھئے تاکہ آپ ان کے خلاف اس دن شہادت دے سکیں جس دن آسمان پر واضح دھواں چھا جائے گا اور ارتقاب کا معنی یاد رکھنا بھی آتا ہے، اسی لیے حافظ کو نگرانی کرنے والا اور رقیب بھی کہتے ہیں۔ اس آیت میں دخان (دھواں) کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں :
(١) حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت ابوہریرہ (رض) اور زید بن علی، حسن اور ابن ابی ملیکہ وغیرھم فرماتے ہیں : دخان (دھواں) قیامت کی علامتوں میں سے ہے، یہ ابھی تک ظاہر نہیں ہوا، یہ قرب قیامت میں چلیس روز تک ظاہر ہوگا اور آسمان اور زمین کی فضاء کو بھر لے گا، مومن پر اس کا اثر زکام کی صورت میں ظاہر ہوگا اور کافر وفاجر کی ناکوں میں داخل ہو کر ان کے کانوں کے سوراخوں سے نکلے گا، ان کا دم گھٹنے لگے گا اور یہ دھواں جہنم کے آثار سے ہے اور حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ دھواں قیامت کے دن لوگوں میں ہیجان پیدا کرے گا۔ مومن پر اس کا اثر زکام کی صورت میں ظاہر ہوگا اور کافر کے جسم میں داخل ہو کر اس کے کانوں کے سوراخوں سے نکلے گا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ١٠ ص ٣٢٨٧، رقم الحدیث : ١٨٥٣٣، النکت والعیون ج ٥ ص ٢٤٧ )
حضرت حذیفہ بن اسید الغفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس آئے، ہم اس وقت مذاکرہ کررہے تھے، آپ نے پوچھا : تم کس چیز میں بحث کررہے ہو ؟ صحابہ نے کہا : ہم قیامت کا ذکر کررہے ہیں، آپ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو، پھر آپ نے ان چیزوں کا ذکر فرمایا : (١) دھواں (٢) دجال (٣) دابۃ الارض (٤) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا (٥) حضرت عیسیٰ بن مریم کا نازل ہونا (٦) یاجوج اور ماجوج کا نکلنا (٧) تین بار زمین کا دھنسنا، مشرق میں دھنسنا (٨) مغرب میں (٩) اور جزیرۃ العرب میں (١٠) اور اس کے آخر میں آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہانک کر میدان محشر کی طرف لے جائے گی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٠١، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
دوسری روایت میں ہے : آسمان کے دھواں لانے سے مراد ہے کفار کی بھوک کی کیفیت
(٢) حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا : دخان (دھوئیں) سے مراد کفار کی بھوک کی کیفیت ہے۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مسلسل سرکشی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے خلاف دعا کی تو ان پر قحط آگیا، بھوک کی شدت میں جب وہ آسمان کی طرف دیکھتے تو وہ ان کو دھوئیں کی طرح نظر آتا، پھر اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے ان سے وہ کیفیت دور کردی، اگر اس سے مراد قیامت کا دھواں ہوتا تو وہ ان سے دور نہ ہوتا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ دھواں اس لیے ظاہر ہوا کہ قریش نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسلسل نافرمانی کی، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خلاف دعا کی کہ اے اللہ ! ان پر ایسے قحط کے سال مسلط کردے جس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں قحط آیا تھا، پھر ان پر قحط آگیا اور ان پر سخت مصیبت آگئی، حتیٰ کہ انہوں نے ہڈیاں کھالیں، ان میں ایک شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اس کو آسمان دھوئیں کی طرح نظر آتا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین یغشی الناس ھذا عذاب الیم (الدخان :10-11)
سو آپ اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان واضح دھواں لائے گا جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا، یہ ہے درد ناک عذاب
پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ لوگ لائے گئے اور آپ سے کہا گیا : یارسول اللہ ! مضر کے لیے بارش کی دعا کیجئے، یہ لوگ ہلاک ہورہے ہیں، آپ نے فرمایا : مضر کے لیے ؟ تم تو بہت جری ہو، پھر آپ نے بارش کی دعا کی بارش نازل ہوگئی، پھر یہ آیت نازل ہوئی۔
انکم عائدون (الدخان :15)
بے شک تم کفر کی طرف لوٹنے والے ہو
پھر جب یہ (بارش ہونے سے) مطمئن ہوگئے تو پھر کفر کی طرف لوٹ گئے، پھر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی :
یوم نبطش البطث الکبری انا منتقمون (الدخان :16)
جس دن ہم بہت سخت گرفت کے ساتھ پکڑیں گے، بیشک ہم انتقام لینے والے ہیں
حضرت ابن مسعود نے فرمایا : اس سے مراد یوم بدر کا انتقام ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٢١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٧٩٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٥٤ )
امام بخاری کی اس سلسلہ میں ایک اور روایت یہ ہے :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دکھا کہ مشرکین آپ کے پیغام توحید سے اعراض کررہے ہیں تو آپ نے ان کے خلاف دعا کی کہ اے اللہ ! ان پر قحط کے ایسے سال مسلط کردے، جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ کے لوگوں پر قحط کے سات سال مسلط کیے تھے، پھر ان پر قحط آگیا، ان کے تمام کھیت جل گئے، حتیٰ کہ انہوں نے جانوروں کی کھالوں کو، مردہ جانوروں کو اور مردہ انسانوں کو کھایا، ان میں سے کوئی شخص آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا تو اسے بھوک کی شدت سے آسمان دھوئیں کی طرح دکھائی دیتا تھا، پھر آپ کے پاس ابوسفیان آیا اور کہنے لگا : یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اللہ کی اطاعت کرنے اور صلہ رحم کا حکم دیتے ہیں اور آپ کی قوم (قحط سے) ہلاک ہورہی ہے، آپ اللہ سبحانہ ‘ سے ان کے حق میں دعا کیجئے، تب یہ آیت نازل ہوئی : ” فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین “ الآیۃ (الدخان :10) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٠٧، السنن الکبریٰ رقم الحدیث : ١١٨١)
آسمان کو دھوئیں سے تعبیر کرنے کی توجیہ
اس دھوئیں سے مراد یہ ہے کہ بھوک کی شدت سے آنکھوں کے آگے جو اندھیرا چھا جاتا ہے اس اندھیرے کو دھویں سے تعبیر فرمایا ہے اور ان قتیبہ نے دھویں کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ قحط کے ایام میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے زمین خشک ہوجاتی ہیں اور گردوغبار اڑنے کی وجہ سے فضا مٹیالی اور مکدر ہوجاتی ہے اور اندھیرا سا لگتا ہے اس کو مجازاً دھویں سے تعبیر فرمایا ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ عرب کے لوگ جو شرپھیل جائے اس کو دھویں سے تعبیر کرتے ہیں۔
دونوں روایتوں میں اصح روایت کا بیان
پہلی روایت کے مطابق آسمان دھواں لانے کا محمل یہ ہے کہ قرب قیامت میں آسمان پر دھواں ظاہر ہوگا اور یہ قرب قیامت کی علامت ہے اور دوسری روایت کے مطابق ایا ام قحط میں کفار کی بھوک کی کیفیت کو مجازاً دھویں سے تعبیر فرمایا ہے، اس لیے پہلی روایت راج ہے کیونکہ وہ حقیقت پر محمول ہے اور دوسری مجاز پر، ثانیا اس لیے کہ پہلی روایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے اور متعدد صحابہ او فقہاء تابعین کا نظریہ ہے اور دوسری روایت صرف حضرت ابن مسعود (رض) کا قول ہے۔
اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ اس کے بعد کی آیتوں میں ہے کفار نے دھوئیں کو دیکھ کر کہا : اے اللہ ! ہم سے اس عذاب کو دور کردے، ہم ایمان لانیوالے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا : ہم تم سے اس عذاب کو دور کردیں تو تم پھر کفر کی طرف لوٹ جائو گے اور قیامت کے وقت کفار کا یہ کہنا اور اللہ تعالیٰ کا ان سے جواب میں اس طرح فرمانا متصور نہیں ہے، امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ یہ علامت قیامت کی باقی علامتوں کے قائم مقام ہو اور اس علامت کے ظہور کے وقت بندوں سے تکلیف منقطع نہ ہو، تاہم اگر اس آیت کی تفسیر حضرت ابن مسعود (رض) کی حدیث کے مطابق کی جائے تو پھر یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 10
[…] تفسیر […]