وَاتۡرُكِ الۡبَحۡرَ رَهۡوًاؕ اِنَّهُمۡ جُنۡدٌ مُّغۡرَقُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 24
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاتۡرُكِ الۡبَحۡرَ رَهۡوًاؕ اِنَّهُمۡ جُنۡدٌ مُّغۡرَقُوۡنَ ۞
ترجمہ:
آپ سمندر کو یوں ہی ساکن چھوڑ کے چلے جائیں، بیشک ان کا لشکر غرق کردیا جائے گا
الدخان : ٢٤ میں فرمایا :” آپ سمندر کو یوں ہی ساکن چھوڑ کے چلے جائیں، بیشک ان کا لشکر غرق کردیا جائے گا “ اس آیت میں ” رھو “ کا لفظ ہے، رھو کے معنی میں حسب ذیل اقوال ہیں :
کعب اور حسن نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ” رھوا “ کا معنی ہے : راستہ اور حضرت ابن عباس سے ایک روایت یہ ہے کہ اس کا معنی ہے : سمت اور ضحاک اور ربیع نے کہا : اس کا معنی ہے : سہل اور عکرمہ سے روایت ہے کہ اس کا معنی ہے، خشک کیونکہ قرآن مجید میں ہے :
فاضرب لھم طریقا فی البحر یبسا۔ (طٰہٰ :77) ان کے لیے سمندر میں خشک راستہ بنا لیجئے۔
ایک قول یہ ہے کہ ان کے لیے سمندر میں متفرق راستے بنائیں، مجاہد نے کہا : کشادہ راستے بنائیں اور ان سے ایک روایت ہے : خشک راستے بنائیں اور ان سے ایک روایت ہے : ساکن راستہ بنائیں اور لغت میں ” رھواً “ کا یہی معنی معروف ہے، قتادہ اور ہر وی کا بھی یہی قول ہے اور دوسروں نے کہا : کشادہ راستہ بنائیں اور ان کا تال ایک ہی ہے کیونکہ جب سمندر ساکن ہو تو وہ کشادہ ہوتا ہے اور اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے سمندر ساکن اور کشادہ ہوگیا تھا اور اہل عرب کے نزدیک الرھو کا معنی الساکن ہے۔
الرھو کا معنی آہستہ آہستہ اور نرمی سے چلنا بھی ہے نیز الرھو او الرھوۃ کا معنی بلند جگہ بھی ہے اور جس نشیب میں پانی جمع ہوجائے اس کو بھی الرھو کہتے ہیں۔ حضرت عائش (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
لا یمنع نقع ماء ولا رھو بئر۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤٨٦٥، دارالفکر، بیروت)
صاف پانی سے منع کیا جائے اور نہ کنویں کے نشیب ہے۔
لیث نے کہا : کہ رھو کا معنی سکون سے چلنا ھبی ہے، اس صورت کا معنی ہے : آپ بغیر کسی خوف، دہشت اور گھبراہٹ کے سکون کے ساتھ سفر پر روانہ ہوں۔
القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 24