امیر المومنین سیدنا امیر معاویہ ؓ پر ایک اعتراض کا جواب
امیر المومنین سیدنا امیر معاویہ ؓ پر ایک اعتراض کا جواب
تحریر : اسد الطحاوی الحنفی
کچھ نیم روافض یہ اعتراض کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ امیر معاویہؓ کو جب حدیث رسولﷺ پیش کی گئی کہ عماربن یاسرؓ کو ایک باغی گروہ قتل کریگا تو انہوں نے رجوع نہ کیا حدیث رسولﷺ سن لینے کے بعد
اور بطور دلیل مسنداحمد کہ مذکورہ روایت پیش کرتےہیں :
محمد بن عمروبن حزم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو سیدنا عمر و بن حزم رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انہیں بتلایاکہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں، جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھاکہ ایک باغی گروہ عمار کو قتل کرے گا۔ یہ سن کر سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ گھبرا گئے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہوئے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی حالت دیکھ کر پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: عمار قتل ہوگئے تو پھر کیا ہوا؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرماتے سنا ہے کہ ایک باغی گروہ عمار کو قتل کرے گا۔ یہ سن کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم اپنے پیشاب میں پھسلو، کیا ہم نے اس کو قتل کیاہے؟ اسے تو علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے مروایا ہے، وہ لوگ انہیں لے آئے اور لا کر ہمارے نیزوں یا تلواروں کے درمیان لا کھڑا کیا
[مسند احمد وسند صحیح]
اسکے دو قسم کے جوابات ہیں تو عرض ہے کہ :
پہلا تحقیقی جواب :
اس مذکورہ روایت میں حضرت امیر معاویہؓ نے اجتیہاد کرتے ہوئے تاویل کی ہے کہ عمار بن یاسر کو ہمارے مخالف گروہ نے جان بوجھ پر اس بزرگی کی عمر میں فوجوں کے سامنے کر کے شہید کروایا تاکہ حدیث رسولﷺ سے ہم پر الزام لگاسکیں ۔
وگرنہ میں نے عمار بن یاسرؓ کو شہید کرنے کا نہ حکم دیا اور نہ ہی مجھ سے پوچھ کر کیا گیا ۔
دوسرا الزامی جواب :
نبی اکرمﷺ نے صحابہ میں سے چند ایک کو یہ خبر دے دی تھی کہ جب معاملہ آئے حضرت مولا علی ؓ اور حضرت ابن زبیر و طلحہؓ اور حضرت سیدنا امیر المومنین معاویہؓ کی جنگ کا تو تم لکڑی کی تلواریں بنا لینا یعنی لڑائی کرنے سے گریز کر لینا
اور جب ایسے صحابہ کے پاس حضرت علی ؓ جنگ میں شامل ہونے کے لیے دعوت دی تو ان صحابہ ؓ نے مولا علیؓ کو حدیث رسولﷺ پیش کی لیکن مولا علیؓ نے انکی بات تسلیم نہ کی یعنی انہوں نے بھی اسکی تاویل کی ہوگی کیونکہ صحابہ کرامﷺ حدیث رسولﷺ کو نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ انکا مقام اس سے کہیں زیادہ بلند ہے
اور اس موقف کی دلیل درج زیل احادیث ہیں :
امام طبرانی اپنی سند سے روایت بیان کرتے ہیں :
حدثنا يحيى بن عثمان بن صالح المصري، ثنا يحيى بن زهدم بن الحارث الغفاري، حدثني أبي، قال: قال لي أهبان بن صيفي: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أهبان، أما إنك إن بقيت بعدي فسترى في أصحابي اختلافا، فإن بقيت إلى ذلك اليوم، فاجعل سيفك من عراجين» قال: فجعلت سيفي من عراجين، فأتاني علي رضي الله عنه، فأخذ بعضادتي الباب، ثم سلم، فقال: يا أهبان، ألا تخرج؟ فقلت: بأبي وأمي يا أبا الحسن، قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم – أو أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم، أو أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، أو تقدم إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم – شك ابن زهدم – فقال: «يا أهبان، أما إنك إن بقيت بعدي فسترى في أصحابي اختلافا، فإن بقيت إلى ذلك اليوم فاجعل سيفك من عراجين» فأخرجت إليه سيفي فولى علي رضي الله عنه
یحییٰ بن زھدم بن حارث کہتے ہیں میرے والد نے مجھے بیان کیا کہ مجھے حضرت اھبان بن صیفیؓ نے فرمایا کہ مجھے رسولﷺ نے فرمایا :”اے اھبان! تو ُمیرے بعد زندہ رہے گا ، میرے صحابہؓ میں اختلاف دیکھے گا ، اگر توُ ان دنوں میں موجود ہو تو اپنی تلوار کھجور کی لکڑی سے بنا لینا ”
(یعنی ان دو گروہوں میں سےکسی بھی ایک کی طرف سے قتال نہ کرنا )
تو میں نے اپنی تلوار کھجور کی لکڑی سے بنالی ۔میرے پاس حضرت علیؓ تشریف لائے ،میرے دروازے کی چوکھٹ پکڑی ، پھر سلام کیا ۔ فرمایا : اے اھبان! کیا نکلیں گے ؟
(حضرت حضرت بن زبیر و طلحہ اور امیرمعاویہؓ سے لڑنے کے لیے )
میں نے کہا : اے ابو الحسن(حضرت علیؓ) میرے ماں باپ آپؓ پر قربان! مجھے رسولﷺ نے وعدہ لیا تھا، ابن زھدم کو شک ہے ، فرمایا اے اھبان! تو ُ میرے بعد زندہ رہے گا ، میرے صحابہؓ میں اختلاف دیکھے گا ، اگر توُ ان دنوں زندہ رہا تو تو ُ اپنی تلوار کھجور کی لکڑی سے بنا رکھنا ، میں نے اپنی تلوار رکھ لی پس حضرت علیؓواپس تشریف لے گئے ۔
[المعجم الكبير وسند حسن برقم: 868]
اور ایسے ہی دوسرے صحابی رسولﷺ کو بھی نبی کریمﷺ نے حکم دیا تھا جو کہ درج زیل ہے :
امام حاکم نے اپنی مستدرک میں بھی اسکو نقل کیا ہے
اما م حاکم بیان کرتے ہیں :
أخبرنا أبو جعفر محمد بن عبد الله التاجر، ثنا يحيى بن عثمان بن صالح السهمي، ثنا محمد بن أبي السري العسقلاني، ثنا المعتمر بن سليمان، حدثني أبي، عن أبي حاجب، قال: كنت عند الحكم بن عمرو الغفاري إذ جاءه رسول علي بن أبي طالب رضي الله عنه، فقال: إن أمير المؤمنين، يقول لك: إنك أحق من أعاننا على هذا الأمر، فقال: إني سمعت خليلي ابن عمك رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا كان الأمر هكذا أو مثل هذا أن اتخذ سيفا من خشب»
ابو حاجب کہتے ہیں میں عمرو بن حکم کے پاس تھا حضرت علی کا قاصد آیا انکے پاس اس نے کہا حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ آپ زیادہ حقدار ہیں جو اس معاملہ (امیر معاویہ کے خلاف) میں میری مدد کریں ۔ انہوں (حضرت حکم بن عمرو) ے عرض کی : میں نے اپنے دوست اور آپؓ کے چچا رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
” جب معاملہ اس طرح ہو تو لکڑی کی تلوار بنانا ، تو میں نے لکڑی کی تلوار بنائ ہے ۔
امام ذھبی نے اس روایت پر سکوت کیا ہے اور امام حاکم کا رد نہیں کیا
[مستدرک الحاکم برقم: 5867 سكت عنه الذهبي في التلخيص وسند صحیح]
اب مولا علیؓ نے جیسے صحابہ کرامؓ سے حدیث رسولﷺ سن کر اسکی کوئی تاویل کی اور جنگ کی اسی طرح سید نا امیر المومنین معاویہؓ نے بھی تاویل کی اس لیے ان دونوں صحابہ کا شمار اہلسنت میں مجتہدین میں ہوتا ہے اور مجتہد اپنے اجتیہاد میں صحیح اجتیہاد پر دو اجر اور خطاء اجتیہادی پر ۱ اجر پاتا ہے
تو مولا علی ؓ نے جو بھی اجتیہاد کیا ہوگا انکا اجتیہاد مقدم ہے انکو دو اجر ملے
اور امیر معاویہؓ نے جو اجتیہاد کیا اس پر بے شک انکو خطاء اجتیہادی ہوئی لیکن ایک اجر تو قطعی طور پر ملا
اس لیے اہلسنت کسی پر بھی ذاتی طعن نہیں کرتی نہ صحابہ کی آڑ میں اہلبیت پر اور نہ ہی اہلبیت کی آڑ میں صحابہ کرامﷺ پر ۔۔۔
دعاگو: اسد الطحاوی الحنفی البریلو ی