مولا علیؓ مجھ سے افضل ہیں اور مجھ سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں
مجھے اللہ کی قسم ہے بیشک مولا علیؓ مجھ سے افضل ہیں اور مجھ سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں
تحریر: اسد الطحاوی
امام ذھبیؒ اپنی تصنیف سیر اعلام میں ایک روایت بیان کرتے ہیں امام یحیی بن سلیمان الجعفی کی کتاب سے باسند:
وفي (كتاب صفين) ليحيى بن سليمان الجعفي حدثنا يعلى بن عبيد، عن أبيه، قال:
جاء أبو مسلم الخولاني وأناس إلى معاوية، وقالوا: أنت تنازع عليا، أم أنت مثله؟
فقال: لا والله، إني لأعلم أنه أفضل مني، وأحق بالأمر مني، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما، وأنا ابن عمه، والطالب بدمه، فائتوه، فقولوا له، فليدفع إلي قتلة عثمان، وأسلم له.
فأتوا عليا، فكلموه، فلم يدفعهم إليه
امام تابعی ابومسلم خولانی اوردوسرے افراد حضرات امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: آپ مولا علیؓ کی مخالفت کرتے ہیں یا خود کو ان کی طرح سمجھتے ہیں ؟
تو امیر معاویہؓ نے کہا: نہیں ! اللہ کی قسم ! مجھے پتہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے افضل ہیں ، اور خلافت کے مجھ سے زیادہ حقدار ہیں ، لیکن کیا تم نہیں جانتے ہو کہ عثمانؓ مظلومانہ قتل کردیے گئے ہیں، اور میں ان کا چچازاد بھائی ہوں اور ان کے خون (کے قصاص) کا طالب ہوں ، لہٰذا تم لوگ حضرت علیؓ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ قاتلین عثمان کو میرے حوالے کردیں میں ان کی خلافت تسلیم کرلیتاہوں ۔ پھر یہ حضرات علیؓ کے پاس آئے اوران سے بات کی لیکن علیؓ نے قاتلین عثمانؓ کو امیر معاویہؓ کے حوالے نہیں کیا۔
[سیر اعلام النبلاء ج3، ص140]
حاشیہ میں علامہ محدث شعیب الارنووط ؒ نے اسناد کےرجال کو ثقہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
رجاله ثقات، وانظر ” البداية ” 8 / 129.
کیونکہ راویان یعلی بن عبید اور عبید بن ابی امیہ کی توثیق پر سب کا اتفاق ہے
۔۔۔۔۔۔۔
تو اس روایت سے ثابت ہوا کہ امیر المومنین معاویہؓ کا اختلاف مولا علی سے خلافت کا نہیں تھا اور نہ ہی وہ انکے مقابل خود کو اس اہل سمجھتے تھے انہوں نے مولا علیؓ کے سامنے صرف ایک شرط رکھی تھی کہ وہ قاتلین حوالے کر دیں اور میں مولا علیؓ کے ہاتھ بیعت کر لونگا
لیکن مولا علی ؓ کا جو بھی اجتیہاد حق تھا انہوں نے حوالے کرنے سے منع کر دیا قاتلین عثمانؓ کو ۔۔
تو یہ اختلاف جنگ کا سبب بنا
اور کوئی تفضیلی یہ اعتراض کرے کہ امیر معاویہؓ جو کہ چچا ذات بھائی تھے انکا حق ہی نہ تھا قصاص لینے کا یا یہ بہانہ تھا
تو اسکا جواب ہے ایسے تفضیلی اپنی جہالت میں غرق ہیں اور انکا یہ طعن نہ صرف امیر معاویہؓ کی ذات تک محدود ہے بلکہ قرآن اور حضرت ابن عباس جو کہ خود بھی اہل بیت میں سے تھے اور مولا علیؓ کے ساتھی تھے انکے موقف کے بھی خلاف ہے
جیسا کہ صحیح الاسناد حضرت ابن عباسؓ کا یہ موقف موجود ہے :
قلت لعلي: اعتزل؛ فلو كنت في جحر طلبت حتى تستخرج، فعصاني، وايم الله ليتأمرن عليكم معاوية، وذلك أن الله عز وجل يقول {ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لوليه سلطانا فلا يسرف في القتل إنه كان منصورا} [الإسراء: 33]
جب عثمانؓ(کی شہادت) کا معاملہ ہوا تو میں نے علیؓ سے کہا : اس معاملے سے دُور رہیں، اگر آپ کسی بِل میں بھی ہوں گے تو (خلافت کے لیے)آپ کو تلاش کر کے نکال لیا جائے گا، لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی۔
اللہ کی قسم!معاویہؓ ضرور تمہارے حکمران بنیں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
: {وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ إِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا}(الإسرائ17: 33)
(اور جو شخص ظلم سے قتل کر دیا جائے، ہم نے اس کے ولی کو اختیار دیا ہے،وہ قتل کرنے میں زیادتی نہ کرے، اس کی ضرور مدد کی جائے گی)
[المعجم الکبیر برقم: 10613واسناد حسن]
پس ثابت ہوا کہ امیر معاویہؓ کا اجتیہاد اپنی دلیل پر تھا اور حضرت ابو مسلم خولانی جو امیر معاویہؓ کے پاس آئے تھے یہ بھی حضرت امیر معاویہؓ ہی کے ساتھ ہو گئے
تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی