اونٹ باندھ کر توکل کرنے کا بیان
ایک شخص بنام خرم شہزاد کی تحقیقِ روایت کا علمی جائزہ
ازقلم :اسد الطحاوی الحنفی
میری نظر میں اسکی تحاریر اکثر گزرتی ہیں جس پر کبھی میں نے غور نہیں کیا لیکن سرسری طور پر دیکھتا ہوں کہ یہ عمومی طور پر فضائل یا ترغیب و ترہیب کے باب میں عمومی روایات جو عند المحدثین مقبول ہیں انکے ضعف پر شدت سے تحاریر پیش کر رہا ہوتا ہے
اور غیر مقلدین میں یہ بیماری بھی بڑی عامی ہے کہ انکو بہت مزہ آتا ہے کہ یہ لوگ حدیث رسولﷺ پر حکم لگائیں اور محدث بننے کا شوق پورا کریں ویسے یہ ہوتے تو غیر مقلدین ہی ہیں اور جیسا انکی جماعت کا دعویٰ و موقف ہے اس پر انکو یہ کام سجتا بھی ہے چاہے ان میں یہ قابلیت ہونا ہو ۔
میں خود بھی غیر عالم ہوں اور علم رجال میں ناقص علم رکھتا ہوں لیکن یہ میرا فرض ہے کہ میں کسی روایت پر اگر تحقیق کاشوق پور کروں تو بھی اپنی طرف سے سو فیصد کامل تحقیق پیش کرنے کی کوشش کرونگا تاکہ میں حدیث رسولﷺ پر اپنی تحقیق کی بنیاد پر جب کوئی حکم لگاوں تو اس میں خطاء کے چانس بہت کم ہوں کیونکہ ہمارے ذاتی شوق یا نفس پرستی میں کوئی حدیث رسولﷺ کا رد نہ ہوجائیں ۔ اور لوگ آپکی تحقیق پر اعتماد کر قول رسولﷺ سے محروم نہ ہوجائیں ۔
اب جناب کی تحقیق کا معیارہم پیش کرتے ہیں کہ انکی تحقیق کتنی ناقص ہوتی ہے اور اسکی بنیاد پر یہ عامیوں کو فضائل یا ترغیبب و ترھیب کے باب کی روایات پر شدومد سے رد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں
موصوف ایک روایت پر اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ضعیف حدیث
اونٹ باندھ کر توکل کرنے کا بیان
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرنے لگا ، میں اونٹ باندھ کر توکل کروں یا بغیر باندھے چھوڑ کر توکل کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے باندھ اور پھر توکل کر ۔۔
( سنن ترمذی : 2517 ،و صحیح ابن حبان : 731 ، والاحادوالمثانی لابن ابی عاصم : 971 ، و التوکل علی اللہ لابن ابی الدنیا : 11 ، و شعب الایمان للبیھقی : 1212 ، و الآداب للبیھقی : 778 ، و الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : 6 / 352 ، و امثال الحدیث لابی الشیخ الاصبھانی :38 ، و حلیة الاولیاء لابی نعیم : 390/8 ،و الاحادیث المختارة المقدسی : 2658 ، و اسنادہ ضعیف )
درج بالا حدیث مغیرة بن ابی قرة السدوسی راوی کے مجہول الحال ( تحریر تقریب التہذیب : 3 \ 411) ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ۔۔
اس کا ایک شاہد ہے وہ بھی یعقوب بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن امیة الضمری راوی کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ ( تحریر تقریب التہذیب : 4 \ 127 )
تنبیہ : درج بالا حدیث کو الجرح والتعدیل کے امام ، امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ ( 120 ھ ، 198 ھ ) نے منکر ( ضعیف ) کہا ہے ۔ ( سنن ترمذی مع کتاب العلل الصغیر : 4 \ 298 ، و اسنادہ صحیح) ۔۔ والحمدللہ
راقم : ابومحمد خرم شہزاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا موصوف کو مشورہ ہے کہ جتنی محنت یہ اپنی تحریر میں جڑی بوٹیاں اور پھول پتے لگانے میں کرتے ہیں تو اس سے نصف ہی صحیح کچھ محنت تحقیق پر بھی کر لینی چاہیے ۔۔
خیر یہ ایک سند کے بارے اعتراض کرتے ہیں کہ ایک راوی مغیرہ بن ابی قرہ مجہول ہے
اور
یہ بھی اقرار کرتا ہے کہ اس روایت کا ایک اور شاہد بھی موجود ہے لیکن اس میں ایک راوی یعقوب بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن امیة بھی مجہول الحال ہے
جسکی وجہ سے بقول اسکے یہ روایت ضعیف ہے ۔ نیز امام یحییٰ بن سعید القطان نے روایت کو منکر قرار دیاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
موصوف نے یہاں کچھ بنیادی اور کچھ اصولی اور کچھ تحقیقی غلطیاں کی ہیں
سب سے پہلے تو ایک ترغیب و ترہیب کے باب کی روایت میں شدت برتتے ہوئے ایک متعدد طرق روایت جس میں قلیل ضعف ہے یعنی دونوں طریق میں مجہولین ہیں اور کثیر ضعف نہیں تو حسن لغیرہ بن جانی چاہیے تھی یہ روایت
لیکن چونکہ غیر مقلدین کی اکثریت حسن لغیرہ کے منکر ہیں تو اصولی اختلاف کے سبب اس پر مذید کچھ نہیں کہتے ۔۔
دوسری بنیادی غلطی یہ کی کہ ابن قطان کی جرح ایک روایت پر ہے جبکہ یہ شاہد پر مطلع ہونے کے باوجود بھی ایک امام کی جرح کو مقید کر رہا ہے مطلق طریق سمیت روایت پر جبکہ یہ اصول ہے کہ راوی جب کسی روایت پر حکم ضعف لگاتا ہے تو وہ مخصوص طریق پر لگاتا ہے چونکہ اس روایت کا شاہد موجود ہے تو ہم اس جرح کی تفصیل میں نہیں جاتے کیونکہ یہ روایت تحقیقا منکر نہ رہی ۔
تیسری تحقیقی غلطی :
موصوف نے سنن ترمذی کی روایت کے ایک راوی کو مجہول کہا اسکی تفصیل میں بھی ہم نہیں جاتے مگر موصوف نے مستدرک الحاکم کی ایک روایت جسکا ذکر بطور شاہد کیا اسکو اس وجہ سے رد کیا کہ بقول انکے
یعقوب بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن امیة راوی مجہول الحال اور موصوف نے حوالہ تقریب التہذیب کا حوالہ دیا ہے ۔ اور چونکہ موصوف نے تحریر تقریب کا حوالہ دیا جس میں اعلامہ شعیب الارنووط کا حوالہ دیکر مذید تحقیق کرنے کی ضرورت نہ سمجھی
۔۔۔۔
راوی یعقوب بن عمرو بن عبداللہ کی توثیق اور روایت کی تصحیح و تحسین محدثین سے :
اس روایت کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں روایت کیا ہے جسکی سند و متن درج زیل ہے :
حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الربيع بن سليمان، ثنا أسد بن موسى، ثنا حاتم بن إسماعيل، ثنا يعقوب بن عمرو بن عبد الله بن أمية الضمري، عن جعفر بن عمرو بن أمية، عن أبيه عمرو بن أمية الضمري رضي الله عنه أنه قال: يا رسول الله أرسل راحلتي وأتوكل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بل قيدها وتوكل»
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 6616 – سنده جيد
امام حاکم کا تساہل معروف ہے روایت کی تصحیح میں پر امام ذھبی نے سند کو جید قرر دیا ہے لیکن اسکے باوجود بھی چونکہ امام ذھبی سے بھی تسامح ہوئے ہیں مستدرک کی تعلیق میں البتہ انکا حکم حدیث کو انکی دوسری کتب سے پرکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انکو وھم ہوا ہے یا مذکورہ حکم تحقیقی ہے
جسکی تفصیل آگے آئے گی ۔
مزید یہ کہ اس روایت کو امام ابن حبان اپنی صحیح میں لائے ہیں اور امام ابن حبان نے مذکورہ راوی یعقوب کو الثقات میں درج کیا ہے
البتہ امام ابن حبان کا مجہولین کو ثقات میں لانا معروف ہے اپنے شاز منہج کے سبب
باقی امام ابن حجر عسقلانی نے تقریب میں اس راوی کو مقبول اور امام شعیب الارنووط نے مجہول الحال قرار دیا ہے
ان سب کے دلائل کے باوجود بھی راوی یعقوب کی توثیق صریح بھی موجود ہے جیسا کہ امام ابن حبان نے اس روایت کو اپنی صحیح میں درج کیا تو انکا مکمل موقف درج زیل ہے :
أخبرنا الحسين بن عبد الله القطان قال حدثنا هشام بن عمار قال حدثنا حاتم بن إسماعيل قال حدثنا يعقوب بن عبد الله عن جعفر بن عمرو بن أمية
عن أبيه قال: قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم أرسل ناقتي وأتوكل؟ قال: “اعقلها وتوكل”
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ابن حبان فرماتے ہیں :
قال أبو حاتم رضى الله تعالى عنه يعقوب هذا هو يعقوب بن عمرو بن عبد الله بن عمرو بن أمية الضمري من أهل الحجاز مشهور مأمون
امام ابن حبان ابو حاتم فرماتے ہیں کہ اس (سند ) میں جو یعقوب ہے یہ یعقوب بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن امیہ الضمری جو کہ اہل حجاز سے ہے اور مشہور ہے اور مومون ہے
[صحیح ابن حبان ، برقم : 731]
اب جبکہ ثابت ہو چکا ہے کہ امام ابن حبان نے انکی صریح توثیق کر دی ہے اپنی صحیح میں مامون کہہ کر تو یہ راوی اب مجہول نہ رہا اور نہ ہی انکا اس راوی کو اپنی ثقات میں درج کرنا اپنے شاز اصول کے تحت تھا
کیونکہ امام ابن حبان نے انکو اہل حجاز کے مشہور و مومون راوی قرار دیا ہے
یہی سبب ہے کہ علامہ شعیب الارنووط الحنفی جنہوں نے تحریر کے حاشیہ میں اس راوی کو مجہول الحال قرار دیا تھا انہوں نے رجوع کرتے ہوئے
اس روایت پر حکم لگاتے ہوئے لکھتے ہیں :
حديث حسن، يعقوب بن عبد الله: هو يعقوب بن عمرو بن عبد الله، ذكره المؤلف في “الثقات” 7/640، وروى عنه اثنان، وباقي رجاله ثقات. وأخرجه الحاكم في “المستدرك” 3/623، والقضاعي في “مسند الشهاب” “633” من طريقين عن حاتم بن إسماعيل، بهذا الإسناد، بلفظ، “قيدها وتوكل”، قال الذهبي: سنده جيد.
یہ حدیث حسن (لزاتہ) ہے یعقوب بن عبداللہ اسکا ذکر مصنف (ابن حبان) نے ثقات میں کیا ہے
اور اس روایت کے باقی رجال ثقات ہیں اور حاکم نے اسکی تخریج مستدرک میں کی ہے ۔ اور قضاعی نے مسند شھاب میں ۔ اسی اسناد سے حاتم کےطریق سے ۔ اور امام ذھبی نے سند کو جید قرار دیا ہے
[تعلیق الارنووط صحیح ابن حبان]
تو معلوم ہوا یہ اپنی اس منفرد سند کے اعتبار سے بھی حسن لذاتہ قرار دیا ہے علامہ شعیب الارنووط نے کیونکہ وہ امام ابن حبان کی صریح توثیق پر مطلع ہو چکے تھے
اب کچھ لوگوں کو یہ احتمال اگر رہہ جائے کہ امام ابن حبان نے تو مشہور پر مامون کہا ہے تو اس سے راوی کی توثیق کس درجہ کی ثابت ہوتی ہے ؟
تو عرض ہے یہ اصول محدثین و ناقدین کے مطابق کلمہ توثیق میں تیسرے درجہ کے الفاظ سے تعلق رکھتے ہیں
امام سیوطی اپنی تصنیف میں اسکو کلمہ توثیق میں تیسرے درجہ میں صدوق و لاباس بہ کے درجہ میں رکھا ہے
جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :
ثم”صدوق”أوفـ”مأمون” و” لا … بأس به ” كذا ” خيار ” وتلا
[ألفية السيوطي في علم الحديث ص ۵۸]
اور اسی طرح امام عراقی لکھتے ہیں :
المرتبة الثالثة: قولهم ليس به بأس، أو لا بأس به، أو صدوق، أو مأمون، أو خيار
[شرح (التبصرة والتذكرة = ألفية العراقي ص ۳۷۱]
اور یہی موقف محققین کا بھی ہے
اسکے ساتھ ہم غیر مقلدین کے محقق بنام محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی جنکی کتاب بنام الجرح والتعدیل اور اسکے اصول ہے وہ بھی کلمات توثیق میں ان راویان جنکی روایت حسن بنتی ہے منفرد کے تحت لکھتے ہیں :
”صدوق:ایسے الفاظ جو راوی کی تعدیل تو کریں لیکن اس کے مکمل ضبط کی شہادت نہ دیں۔جیسے صدوق، مامون، لابأس بہ،صدو ق ان شاء اللہ یا محلہ الصدق وغیرہ۔اس کی حدیث حسن کہلاتی ہے۔ایسے راوی کا ضبط کچھ خفیف ہوتا ہے۔”
[کتاب الجرح والتعدیل ص ۲۷]
تو اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ جمہورمحدثین کے اصول کے مطابق یہ روایت فقط اپنی منفرد سند کے اعتبار سے بھی حسن لذاتہ ہے
جبکہ موصوف اس راوی کو متابعت و شواہد میں بھی رد کر بیٹھے ہیں جسکی اپنی منفرد روایت حسن درجہ کی ہوتی ہے
امید کرتے ہیں موصوف آئندہ روایات کی تحقیق میں کچھ احتیاط برتیں گے اور لوگوں حدیث رسولﷺ جو کہ ترغیب و ترہیب کے باب میں ہیں جنکو عمومی طور پر محدثین نے قبول کیا ہے اور تصحیح و تحسین کی ہے ان پر ہاتھ صاف کرنے سے روک لینگے خود کو
تحقیق دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی