اِنَّ الۡمُتَّقِيۡنَ فِىۡ مَقَامٍ اَمِيۡنٍۙ ۞- سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 51
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ الۡمُتَّقِيۡنَ فِىۡ مَقَامٍ اَمِيۡنٍۙ ۞
ترجمہ:
بیشک متقین مقام امن میں ہوں گے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
بے شک متقین مقام امن میں ہوں گے جنتوں اور چشموں میں وہ باریک اور دبیز ریشم کا لباس پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے ایسا ہی ہوگا، اور ہم بڑی آنکھوں والی حوروں کو ان کی بیویاں بنائیں گے اور وہاں سکون سے ہر قسم کے میوئوں کو طلب کریں گے وہ جنت میں دنیا کی پہلی موت کے سوا اور کوئی موت نہیں چکھیں گے اور اللہ انہیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھے گا آپ کے رب کے فضل سے یہی بڑی کامیابی ہے ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان میں ہی آسان کیا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں سو آپ انتظار کیجئے، بیشک وہ (بھی) انتظار کرنے والے ہیں (الدخان :51-59)
آخرت میں متقین کے اجروثواب کی بشارت
متقین سے مراد ہے : جو لوگ کفر سے اور کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں اور وہ مؤرخین صالحین ہیں اور مقام کا معنی ہے : موضع قیام یعنی جگہ، اس مقام کی صفت ” امین “ فرمائی ہے یعنی یہ وہ جگہ ہے جہاں پر رہنے والا آفات اور بلیات سے، عذاب اور تکلیف دو چیزوں سے مامون اور محفوظ رہے گا، اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ جو شخص دنیا میں اللہ کی نافرمانی اور معصیت سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کو ایسی جگہ رکھے گا جہاں وہ ہر قسم کے ڈر اور خوف سے مامون اور محفوظ ہوگا۔
مقام امین وہ جگہ ہے جہاں انبیاء، اولیاء، صدیقین اور شہداء کی مجلس ہوتی ہے، خواہ دنیا میں خواہ آخرت میں، دنیا میں اس لیے کہ ان کی مجلس میں معصیت اور نافرمانی سے امن ہوتا ہے اور جو شخص ان کی مجلس میں آکر بیٹھ جائے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے محروم نہیں ہوتا اور آخرت میں اس لیے کہ ان کی مجلس میں عذاب سے امن ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی متعلق فرمایا ہے :
لا یحزنھم الفزع الاکبر وتتلقھم الملئکۃ ھذا یومکمک الذی کنتم توعدون (الانبیاء : 103)
حشر کے دن کی بڑی گھبراہٹ بھی انہیں غمگین نہ کرسکے گی، فرشتے ان سے مل کر کہیں گے : یہی تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا
امام رازی کا فاسق کو جنت کی بشارت میں داخل کرنا اور مصنف کا اس سے اختلاف
امام رازی محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
ہمارے اصحاب نے کہا ہے : ہر وہ شخص جو شرک کو ترک کردے متقی کا مصداق ہے، پس واجب ہے کہ فاسق بھی اس بشارت میں داخل ہو۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٦٦٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
میں کہتا ہوں کہ یہ درست ہے کہ وصف کے اعتبار سے مطلق اپنے اطلاق پر رہتا ہے اور اس آیت میں متقین کا ذکر مطلقاً ہے خواہ وہ شرک سے متقی (مجتنب) ہوں یا گناہ کبیرہ سے متقی ہوں یا گناہ صغیرہ سے متقی ہوں یا خلاف سنت اور خلاف اولیٰ ہر قسم کے ممنوع کام سے متقی اور مجنتب ہوں، لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہاں پر متقین سے مراد وہ مسلمان ہیں جو گناہ کبیرہ سے متقی ہوں یا جنہوں نے موت سے پہلے اپنے تمام کبیرہ گناہوں سے توبہ کرلی ہو اور وہ مسلمان مراد نہیں ہیں جن کو اس حال میں موت آئے کہ وہ اصرار اور دوام کے ساتھ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کررہے ہوں ورنہ لازم آئے گا کہ صالحین اور فاسقین دونوں کے لیے یہ بشارت ہو کہ وہ دونوں مقام مامون میں ہوں گے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
ام نجعل الذین امنو وعملو الصلحت کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجار (ص ٢٨ )
کیا ہم ایمان لانے والوں اور اعمال صالحہ کرنیوالوں کو ان کی مثل کردیں گے جو زمین میں فساد کرنیوالے ہیں یا ہم متقین کو فاسقین کی مثل کردیں گے ہاں یہ درست ہے کہ جن مسلمانوں کا بغیر توبہ کے فسق پر خاتمہ ہوا اگر اللہ تعالیٰ چاے گا تو ان کی بھی مغفرت فرمادے گا اور اس کی کئی کئی صورتیں ہیں : نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا دیگر انبیاء اور صالحین کی شفاعت سے ان کی مغفرت ہوجائے، یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل محض سے ان کی مغفرت فرمادے یا میدان محشر میں آخر وقت تک ان کو روکے رکھے اور پھر ان کو جنت میں داخل فرمادے یا کچھ عرصہ دوزخ میں داخل کرنے کے بعد ان کو جنت میں داخل فرمادے۔ بہرحال ابتداء فاسقین کا جنت میں اور اس بشارت میں داخل ہونا واجب نہیں ہے اور مؤمنین صالحین کا جنت میں اور اس بشارت میں ابتداء داخل ہونا قطعی اور ضروری ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 51
[…] تفسیر […]