أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ لَاٰيٰتٍ لِّلۡمُؤۡمِنِيۡنَؕ ۞

ترجمہ:

بیشک آسمانوں اور زمینوں میں مؤمنوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں

اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق سے استدلال

الجاثیہ : ٣ میں فرمایا : ” بیشک آسمانوں اور زمینوں میں مؤمنوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں “

کیونکہ آسمانوں اور زمینوں کے ایسے احوال ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں، آسمان اور زمین دونوں اجسام مخصوصہ ہیں، ان کی جسامت کی مقدار معین ہے، ان کی وضع اور سمت معین ہے، ان کی حرکت معین ہے، اب ضروری ہے کہ اس مخصوص مقدار، مخصوص وضع اور سمت اور مخصوص حرکت کا کوئی مخصص ہو، کیونکہ ترجیح بلا مرجح محال ہے اور ضروری ہے کہ وہ مرجح ممکن نہ ہو واجب ہو، کیونکہ اگر وہ مخصص ممکن ہوا تو اس کے وجود کے لیے پھر کسی مرجع کی ضرورت ہوگی اور اس سے تسلسل لازم آئے گا اور تسلسل محال ہے اس لیے ضروری ہے کہ وہ مرجح واجب اور قدیم ہو اور ضروری ہے کہ وہ مرجح واحد ہو ورنہ تعدوجباء لازم آئے گا اور ہم کئی بار بیان کرچکے ہیں کہ تعددوجباء محال ہے۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آسمانوں میں سورج، سیارے (چاند اور مریخ وغیرہ) اور ستارے ہیں اور زمینوں میں پہاڑ، سمندر، درخت اور انواع و اقسام کے حیوانات ہیں اور یہ تمام ایک نظام کے تحت ہیں، ہزاروں سال سے سورج کا طلوع اور غروب ہورہا ہے۔ کچھ لوگ حضرت عیسیٰ کو خدا کہتے ہیں، کچھ لوگ حضرت عزیر کو خدا کہتے ہیں، کچھ لوگ دیوی اور دیوتا کو خدا کہتے ہیں مگر سورج اور چاند کا طلوع اور غروب تو ان کے وجود اور ظہور سے بہت پہلے تھا تو وہ اس نظام کے خالق نہیں ہوسکتے، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس تمام کائنات کا نظام ایک نہج پر چل رہا ہے، سورج اور چاند ایک مخصوص جانب سے طلوع ہوتے ہیں اور اس کی مقابل جانب میں غروب ہوجاتے ہیں، گلاب کے پھولوں کے درخت میں گلاب ہی لگتے ہیں کبھی چنبیلی کے پھول نہیں کھلتے، آم کے درخت سے آم ہی پیدا ہوتا ہے کیلا یا انناس پیدا نہیں ہوتا، اس تمام کائنات کا نظام واحد ہے اور یہ نظام کی وحدت زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہمارا ناظم اور خالق بھی واحد ہے۔

نیز اس آیت میں فرمایا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں مؤمنوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں، دراصل یہ نشانیاں تو مومن اور کافر سب کے لیے ہیں لیکن ان نشانیوں سے صاحب نشان تک پہنچنے کی کوشش صرف مؤمنین ہی کرتے ہیں اور ان نشانیوں سے فائدہ صرف مؤمنین ہی اٹھاتے ہیں، اس لیے فرمایا : ان میں مؤمنین کے لیے ضرور نشانیاں ہیں، اس کی نظیر یہ ہے کہ فرمایا : ” ھدی للمتقین “ (البقرہ :2) یہ قرآن متقین کے لیے ہدایت ہے حالانکہ قرآن مجید تو سب کے لیے ہدایت ہے جیسے فرمایا ہے : ” ھدی للناس “ (البقرہ :185) یعنی قرآن مجید نفسہٖ تو سب کے لیے ہدایت ہے مگر اس کی ہدایت سے فائدہ متقین ہی اٹھاتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 3