تِلۡكَ اٰيٰتُ اللّٰهِ نَـتۡلُوۡهَا عَلَيۡكَ بِالۡحَقِّ ۚ فَبِاَىِّ حَدِيۡثٍۢ بَعۡدَ اللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ يُؤۡمِنُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 6
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
تِلۡكَ اٰيٰتُ اللّٰهِ نَـتۡلُوۡهَا عَلَيۡكَ بِالۡحَقِّ ۚ فَبِاَىِّ حَدِيۡثٍۢ بَعۡدَ اللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ يُؤۡمِنُوۡنَ ۞
ترجمہ:
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جن کی ہوم آپ کے سامنے حق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں، سو اللہ اور اس کی آیتوں کے بعد وہ کس کتاب پر ایمان لائیں گے
الجاثیہ : ٦ میں فرمایا : ” یہ اللہ کی آیتیں ہیں جن کی ہوم آپ کے سامنے حق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں، سو اللہ اور اس کی آیتوں کے بعد وہ کس کتاب پر ایمان لائیں گے “
اس آیت میں فرمایا ہے : ان آیتوں کی ہم آپ کے سامنے تلاوت کرتے ہیں، اس کا معنی ہے : ہم جبرئیل کے واسطے سیآپ کے سامنے ان آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں کیونکہ آپ کے سامنے ان آیتوں میں حضرت جبرئیل نے تلاوت کی تھی اور یہ آیات حق اور صدق کے ساتھ مقرون ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں ان دلائل توحید کی طرف اشارہ ہو جن کا ذکر ان آیات میں ہے۔
اس آیت سے مراد یہ ہے کہ تمام آسمانی کتابوں میں سب سے آخری کتاب قرآن مجید ہے اور اس کتاب کی عبادت اور اس کے احکام قیامت تک محفوظ اور غیر منسوخ ہیں اور اس کے بعد کوئی کتاب نازل ہونی ہے نہ کوئی وحی آنی ہے تو جب تم اس کتاب پر ایمان نہیں لائے تو پھر کس کتاب پر ایمان لائو گے، کیونکہ ہمارے نبی (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی ہیں اور قرآن مجید آخری کتاب ہے اور اس کتاب کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہوگی اور اس نبی کے بعد کوئی مبعوث نہیں ہوگا، پس اگر تم اس نبی پر ایمان نہیں لائے اور اس کتاب پر ایمان نہیں لائے تو پھر کس کتاب پر ایمان لائو گے۔
اس آیت میں حدیث کا لفظ ہے جس کا ترجمہ ہم نے کتاب کیا ہے کیونکہ قرآن مجید میں کتاب پر حدیث کا اطلاق کیا گیا ہے۔
اللہ نزل احسن الحدیث : (الزمر : 23) اللہ نے سب سے عمدہ حدیث (کتاب) نازل کی ہے۔
اس آیت میں کفار مکہ کی مذمت کی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن مجید کی تلاوت سنتے تھے اور اس پر ایمان نہیں لاتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے : وہ لوگ باعث فضیلت اور لائق حمد ہیں جو قرآن مجید کو سن کر ایمان لائے، فرشتے قرآن مجید سن کر ایمان لائے لیکن ان کا ایمان لانا اس قدر قابل تعریف نہیں ہے کیونکہ وہ امور غیب کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب قرآن مجید کو سن کر اس پر ایمان لائے لیکن ان کا ایمان لانا بھی اس قدر باعث تحسین اور موجب حیرت نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے قرآن مجید کو سنا، آپ کے بیشمار معجزات کا مشاہدہ کیا، کمال تو ان کا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بن دیکھے ایمان لائے، جنہوں نے نبوت کو چلتے پھرتے نہیں دیکھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے قرآن نہیں سنا اس کے باوجود قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لے آئے، اس معنی پر حسب ذیل احادیث میں دلیل ہے۔
ان لوگوں کی مدح میں احادیث جو آپ کو بن دیکھے آپ پر ایمان لے آئے
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے، ان میں سے ایک شخص یہ چاہے گا کہ کاش ! اس کا سارا مال اور اس کے سارے اہل جاتے رہیں اور وہ مجھے ایک نظر دیکھ لے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٣٢، مسند احمد ج ٢ ص ٤١٧)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے، کوئی از خود نہیں جانتا کہ اس کے اول میں خیر ہے یا اس کے آخر میں خیر ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٩ مسند احمد ج ٣ ص ١٣٠)
عمرو جب بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (صحابہ سے) پوچھا : تمہارے نزدیک مخلوق میں سب سے عمدہ ایمان لانے والے کون ہیں ؟ صحابہ نے کہا : فرشتے، آپ نے فرمایا : وہ ایمان کیوں کر نہیں لائیں گے حالانکہ وہ اپنے رب کے پاس ہیں، صحابہ نے کہا : پھر انبیاء (علیہم السلام) ہیں، آپ نے فرمایا : ایمان کیوں کر نہیں لائیں گے حالانکہ کے اوپر وحی نازل ہوتی ہے، صحابہ نے کہا : پھر ہم ہیں، آپ نے فرمایا : تم ایمان کیوں کر نہیں لائو گے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے عمدہ ایمان لانے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے، وہ ان صحیفوں کو پائیں گے جن میں اللہ کی کتاب ہوگی اور وہ اس پوری کتاب پر ایمان لائیں گے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص ٥٣٨)
عبدالرحمن بن العلاء الحضری روایت کرتے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سماع کرنے والے ایک شخص نے مجھ سے کہا : اس امت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جن کو پہلوں کی طرح اجر ملے گا، وہ نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور فتنہ باز لوگوں سے قتال کریں گے۔ (دلائل النبوۃ ج ٦ ص ٥١٣)
حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ اس شخص کے لیے ایک خوشی ہو جس نے مجھ کو دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور اس شخص کے لیے سات خوشیاں ہوں جس نے مجھ کو نہیں دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا۔
ابو محیرز بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک صحابی رسول ابی جمعہ سے کہا : ہمیں ایسی حدیث سنائیں جس کو آپ نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہو، انہوں نے کہا : ہاں ! میں تم کو ایک جید حدیث سناتا ہوں، ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ناشتہ کیا اور ہمارے ساتھ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح بھی تھے، انہوں نے کہا : یارسول اللہ ! کیا ہم سے افضل بھی کوئی ہے، ہم اسلام لائے اور ہم نے آپ کے ساتھ جہاد کیا، آپ نے فرمایا : ہاں ! جو لوگ تمہارے بعد آئیں گے وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھ کو دیکھا نہیں ہوگا۔ (مسند احمد ج ١٠٦، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٧٤٤ )
القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 6