أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلْ لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يَغۡفِرُوۡا لِلَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ اَيَّامَ اللّٰهِ لِيَجۡزِىَ قَوۡمًۢا بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ ۞

ترجمہ:

آپ ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے تاکہ اللہ ایک قوم کو اس کے کیے ہوئے کاموں کا بدلہ دے

الجاثیہ : ١٤ کے شان نزول کی تحقیق

الجاشیہ : ١٤ میں فرمایا : ” آپ ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے تاکہ اللہ ایک قوم کو اس کے کیے ہوئے کاموں کا بدلہ دے “

امام ابوالحسن علی بن احمد واحدی متوفی ٤٦٨ ھ اس آیت کے شان نزول میں لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے غزوہ بنو المصطلق میں ایک کنویں کے پاس قیام کیا جس کا نام المریسیع تھا، عبداللہ بن ابی نے اپنے غلام کو اس کنویں سے پانی لینے کے لیے بھیجا، وہ کافی دیر بعد واپس آیا، عبداللہ بن ابی نے پوچھا : تمہیں دیر کیوں ہوئی ؟ اس نے کہا : حضرت عمر کا غلام کنویں کے منہ پر بیٹھا ہوا تھا، اس نے کسی کو کنویں سے پانی لینے نہیں دیا، حتیٰ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر اور ان کے غلام کی مشکیں نہ بھر جائیں، یہ سن کر عبداللہ بن ابی نے کہا : ان کی اور ہماری حالت کے متعلق یہ ضرت المثل ہے : اپنے کتے کو موٹا تازہ کرو تاکہ وہ تمہیں کھاجائے، جب حضرت عمر (رض) کو یہ بات پہنچی تو وہ تلوار سونت کر ابن ابی کی طرف جانے لگے، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی : آپ ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے (الجاثیہ : ١٤) (اسباب نزول القرآن ص ٣٩٣، رقم الحدیث : ٧٤٣، معالم التنزیل رقم الحدیث : ١٩٠٨، الکشاف ج ٤ ص ٢٩١، تفسیر کبیر ج ٩ ص ٦٧٣، الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٥٥ )

اس حدیث کی سند ضعیف ہے، علاوہ ازیں اس پر یہ اعتراض ہے کہ یہ سورت مکی ہے اور غزوہ بنو المصطلق ٥ ھ میں مدینہ میں ہوا تھا، نیز اس آیت میں کفار سے درگزر کرنے کا حکم دیا ہے، حالانکہ اس سے پہلے دو ہجری میں بدر کا معرکہ ہوا تھا اور کفار کے خلاف متعدد غزوات ہوچکے تھے۔ علامہ واحدی متوفی ٤٦٨ ھ، علامہ بغوی متوفی ٥١٦، علامہ زمخشری متوفی ٥٣٨ ھ، امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ اور علامہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے اس روایت کا ذکر کیا ہے، لیکن ان امور پر غور نہیں کیا، اس آیت کے شان نزول میں دوسری روایت یہ ذکر کی گئی ہے :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔

من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا۔ (البقرہ : 245)

وہ کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے۔

تو مدینہ میں فنحاص نام کا ایک یہودی تھا، اس نے کہا : (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب محتاج ہوگیا، جب حضرت عمر (رض) نے یہ سنا تو وہ تلوار لے کر اس شخص کو ڈھندنے چلے گئے، تب حضرت جبرئیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ آیت لے کر آئے : ” آپ ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے “۔ (الجاثیہ :14) تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو بلوایا اور جب وہ آگئے تو آپ نے فرمایا : اے عمر ! تلوار رکھ دو ، حضرت عمر نے کہا : یارسول اللہ ! آپ نے سچ فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کے سامنے یہ آیت پڑھی۔ (اسباب النزول رقم الحدیث : ٧٤٣، ص ٣٩٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

یہ واقعہ بھی مدینہ کا ہے اور یہ سورت مکی ہے، اس روایت کو بھی مذکور الصدر مفسرین نے ذکر کیا ہے اور اس پر بھی وہی اعتراض ہوتے ہیں جو ہم نے اس سے پہلی روایت پر کیے ہیں۔

علامہ علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے اس کے شان نزول میں لکھا ہے :

مشرکین میں سے ایک شخص نے حضرت عمر (رض) کو گالی دی، حضرت عمر نے اس کو مارنے کا ارادہ کیا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ پھر حضرت عمر اس مشرک سے انتقام لینے سے رک گئے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٦٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

علامہ علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے اس کے شان نزول میں لکھا ہے :

حضرت ابن عباس (رض) اس آیت (الجاثیہ :14) کی تفسیر میں فرماتے ہیں : جب مشرکین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچاتے تھے تو آپ ان سے اعراض کرتے تھے، وہ آپ کا مذاق اڑاتے تھے اور آپ کی تکذیب کرتے تھے، پھر اللہ عزوجل نے آپ کو حکم دیا کہ آپ تمام مشرکین سے قتال کریں، پس گویا یہ آیت منسوخ ہوگئی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤١١٩)

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کو حسب ذیل آیتوں نے منسوخ کردیا :

فاما تثقفنھم فی الحرب فشرد بہم من خلفھم لعلھم یذکرون (الانفال :57)

پس جب کبھی آپ جنگ میں ان پر غالب ہوں تو ان پر ایسی ضرت لگائیں کہ ان کے پیچھے والے بھی بھاگ جائیں تاکہ یہ نصیحت حاصل کریں

وقاتلو المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ۔ (التوبۃ :36)

اور تم تمام مشرکین سے لڑو جیسا کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں۔

مسلمانوں کو اس وقت تک ان سے قتال کرنے کا حکم دیا ہے جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ نہ پڑھ لیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤١٢١، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

اس آیت میں ایام اللہ کا ذکر ہے، اس سے مراد ہے : دنیا میں لوگوں پر انعام کرنے یا ان کو سزا دینے کے ایام، جیسے وہ دن جب بنو اسرائیل کو فرعون سے نجات دی اور یہی وہ دن تھا جب فرعون اور اس کی قوم کو غرف کیا گیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 14