محرم الحرام میں شادی کتب اعلٰی حضرت کی روشنی
محرم الحرام میں شادی کتب اعلٰی حضرت کی روشنی میں نیز اعتراضات کاعلمی محاسبہ
نوٹ؛ یہ تقریباً دو سال پرانی تحریر ہے۔ کیونکہ ان دنوں اس مسئلہ کو دوبارہ اٹھا کر اویس قادری صاحب پر طعن کیا جا رہا ہے اس لئے دوبارہ اپلوڈ کی جا رہی ہے۔ (محمد اویس رضوی)
حضور قبلہ سیدی امیرِ اھلسنت سے سوال پوچھا گیا کہ کیا محرام الحرام میں شادی کرنا جاٸز ہے؟
تو آپ نے شرعی حکم بیان کرتے ہوٸے جواب دیا کہ جاٸز ہے۔
امیرِ اھلسنت نے تو شریعت کا حکم بیان کیا مگر کچھ نیم رافضیوں کو مروڑ اٹھنے لگ گٸے۔ اور خوامخواہ جبلُ الاسقامة، مولانا الیاس قادری پر ناصبیت کا فتویٰ جڑ دیا۔
کیونکہ یہ لوگ خود کو سنی اور مسلکِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے پیروکار کہتے ہیں تو اس لٸے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے فتاویٰ جات کی روشنی میں چند حوالہ جات پیشِ خدمت ہیں۔
مٶیّدِ ملتِ طاھرہ، صاحب صاحب الدلاٸل القاھرة والباھرہ، اعلٰی حضرت، سیدی احمد رضا خان علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ:
” بعض اہل سنت و جماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر روٹی پکاتے اور نہ جھاڑو دیتے ہیں ۔کہتے ہیں بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی ۔
2-ان دس دن میں کپڑوں (کپڑے) نہیں اتارتے۔
3-ماہ محرم میں کوئی شادی بیاہ نہیں کرتے ۔
4-اِن ایام میں سوائے امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کے کسی کی نیاز فاتحہ نہیں دلاتے ۔یہ جائز ہے یا ناجائز؟ بینوا توجروا۔
الجواب:
“پہلی تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے “چوتھی بات جہالت ہے ہر مہینے میں ہر تاریخ ہر ولی کی نیاز اور ہر مسلمان کی فاتحہ ہوسکتی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔
[فتاویٰ رضویہ، جلد24، صفحہ مطبوعہ رضا فاٶنڈیشن لاھور]
یہی فتویٰ اس کتاب میں موجود ہے
[احکام شریعت ، حصہ اول ، صفحہ 141 ، ناشر اکبر بکسیلرز اردو بازار لاہور]
مزید فتاویٰ رضویہ کی گیارھویں جلد میں سیدی اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ:
”محرم الحرام یا صفر المظفر میں نکاح کرنا منع ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو کیوں؟
الجواب
نکاح کسی بھی مہینے میں منع نہیں، واللہ تعالٰی اعلم
[فتاویٰ رضویہ، جلد11، صفحہ 265، مطبوعہ رضا فاٶنڈیشن لاھو]
یہی فتویٰ اس کتاب میں بھی موجود ہے
[تلخیص فتاویٰ رضویہ، صفحہ 248، مطبوعہ اکبر بکسیلرز لاھور]
جو لوگ امیرِ اھلسنت پر حکمِ شرعی بیان کرنے کی وجہ سے ناصبیت اور بغضِ اھلبیت کا فتویٰ جَڑ رہے ہیں وہ اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ پر کیا فتویٰ لگاٸیں گے؟؟
اعتراض:: نیم رافضی کہتا ہے کہ گھر میں بیٹے کی لاش پڑی ہو تو کوٸی شادی کرے گا؟
جواب اسکا الزامی جواب یہ ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں حضور ﷺ کا کاوصال ہوا۔ تو تم خوشی کیوں مناتے ہو؟
ما ھو جوابکم فھو جوابنا
دوسرے نمبر پر عرض ہے کہ چودہ سو سال بعد کونسی لاش گھر میں پڑی ہے؟
ہاں اگر شیعوں کی طرح لاشوں کے مصنوعی پُتلے بنا کر آپ نے گھر میں رکھ لیٸے ہوں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ چاہے تم اس پر ماتم بھی کر لیا کرو۔
تیسری بات یہ کہ امیرِ اھلسنت ترغیب نہیں دلا رہے بلکہ حکمِ شرعی بیان فرما رہے ہیں۔
اعتراض:: ایک کُھنڈی شمشیر کے چمچے نے کہا کہ سال میں 365 دن ہے تو کیا یہ مسٸلہ انہی دنوں میں بیان کرنا ضروری تھا؟
الجواب: جب درد ہو دوا اسی وقت دی جاتی ہے یا آرام کے بعد؟
آپکے خیال میں مسٸلہ رجب میں پوچھا جاتا اور جواب اسکا رمضان میں دیا جاتا ؟
جب مسٸلہ ہی محرم الحرام میں پوچھا گیا تو اسکا جواب بھی محرم الحرام میں ہی دینا تھا، نہ کہ رجب میں جا کر۔
اگر پھر بھی تسلی نہیں ہوٸی تو ملاحظہ ہو کہ اوپر اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کا جو فتویٰ بیان ہوا کہ محرم میں نکاح جاٸز ہے وہ سوال اعلٰی حضرت سے ”” 11/محرم الحرام 1338ھ ““ میں پوچھا گیا اور آپ نے جواب بھی 11 محرم کو ہی دیا۔ آپکی طرح یہ نہیں سوچا کہ سال میں 365 دن ہے تو کیا جواب آج محرم الحرام میں ہی ضروری ہے؟
یا تو اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کا نام لینا چھوڑ دو یا پھر انکی تعلیمات کو اپنا لو۔
یعنی پکے رضوی بن جاٶ۔۔۔یا پھر پکےرافضی بن جاٶ
اعتراض:طبیعت نہیں مانتی کہ محرم الحرام میں شادی کی جاٸے۔
جواب:: طبیعت کو شریعت کے تابع کرو، شریعت کو طبیعت کے تابع نہ کرو۔
اگر یونہی عوام میں طبیعت طبیعت کی رٹ لگاٸی رکھی تو کل کو لوگ آپ سے اس طرح سوال کیا کریں گے۔
اس مسٸلے پر حکمِ طبیعت بیان کر کے اجر کماٸیں۔
طبیعت کے نہ ماننے پر حکمِ شرعی بدل نہیں جاتا۔ دیکھو حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کھانے کی چیز میں مکھی گر جاٸے تو اسکو غوطہ دے کر نکال دو اور کھانا کھا لو (مفہوما)
اب اگر کسی کی طبیعت نہیں مانتی تو کیا حکمِ شرع بدل دیا جاٸے گا؟
طبیعت نہیں نہیں مانتی تو نہ کھاٸے لیکن اعتقادِ حلت تورکھے۔
اعتراض::رضوی تم نےکہا کہ شریعت میں تین دن سے زیادہ سوگ منانا جاٸز نہیں حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ اور ابوطالب کی وفات کے پورے سال کا نام ہی عامُ الحزن رکھ دیا۔
جواب::جناب نے اعتراض تو کر جڑ دیا مگر یہ نہیں سوچا کہ خود ہی پھنس جاٶں گا۔
تمہارے قاعدے کے مطابق اگر محرم الحرام میں اس لٸے نکاح جاٸز نہیں کہ اس مہینے نواسٸہ رسول ﷺ کی شہادت ہوٸی۔
پھر تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ اور ابو طالب کی وفات والے سال کو عامُ الحزن(غم کا سال) کہا تو اس طرح 12 مہینوں میں ہی نکاح نہیں کرنا چاہیٸے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے بارہ مہینوں کو ہی غم قرار دے دیا۔
برسبیل تسلیم اگر ہم مان بھی لیں کہ جس طرح سرکار علیہ السلام نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا جس میں ام المؤمنین اور ابوطالب کی وفات ہوئی
تو اس قاعدے کے مطابق پھر شہادت امام حسین کی وجہ سے اسی سال کو عام الحزن کہا جاۓ گا جس سال میں ان کی شہادت ہوئی نہ کہ آج 1400 سال بعد پورے سال کو عام الحزن قرار دے دیا جاۓ
دوسرے نمبر پر یہ کہ حضور ﷺ نے میت پر مرد کو تین دن کا سوگ منانے کو کہا ہے۔
اگر رسول کریم ﷺ نے اس پورے سال کو غم کا سال قرار دے دیا تو یہ رسول اللہ ﷺ کی تخصیص ہے آپ ﷺ جو چاہیں کریں۔
کل کو کوٸی اٹھ کر یہ کہہ دے گا کہ دیکھو شریعت نے چار شادیوں کی رخصت دی ہے مگر حضور ﷺ نے حضرت فاطمة الزھرہ علی ابیھا وعلیھا السلام کی موجودگی میں مولا علی پر دوسرا نکاح حرام کر دیا۔
تو رسولِ کریم ﷺ جس کے لٸے چاہیں شرع کے حکم کی تخصیص کر دیں۔
اسی طرح حضور ﷺ نے اس سال کو غم کا سال کہہ کر اسی سال کی غم سے تخصیص کر دی۔
اعتراض:: تم اپنی اولاد کا نام یزید رکھ لیا کرو شریعت نے کونسا منع کیا ہے۔
جواب:: کچھ نام ایسے ہیں کہ جو بری شخصیت کی وجہ سے عند العلما قبیح ہو گٸے جیسے یزید۔
اور کچھ نام ایسے کہ شخصیات تو بری تھیں مگر ان ناموں کو قبیح نہیں سمجھا جاتا۔
دیکھو رسول اللہ ﷺ کے گستاخ کا نام ولید بن مغیرہ تھا جوکہ حرامی تھا اور اسکی مذمت خود قرآن نے بیان کی مگر ”ولید“ نام کو اتنا برا نہیں سمجھا جاتا جتنا یزید کو۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے گستاخ کا نام ابو رافع تھا مگر رافع نام کو اتنا برا نہیں سمجھا جاتا جتنا یزید کو
اسی طرح حضرت مولا علی مشکل کشا شیر خدا رضی اللہ عنہ کے قاتل کا نام عبد الرحمٰن تھا لیکن مسلمان یہ نام رکھتے ہیں۔ کیونکہ اسکو قبیح نہیں سمجھا جاتا۔
#نقطہ:: بعض کاموں کو شریعت نے جاٸز کہا ہے ترغیب نہیں دی۔ تو اگرچہ یہ نام جاٸز مگر اسکی ترغیب نہیں دلاٸی۔
اسی طرح امیرِ اھلسنت نے محرم میں نکاح کو شرعاً جاٸز کہ کر حکمِ شریعت بیان کیا ہے ترغیب نہیں دلاٸی۔ اور تم لوگ اس نام ”یزید“ کی ترغیب دلا رہے۔
اور جناب کس منہ سے یہ شُبہ وار کر رہے ہیں جناب کا تو اپنا نام ”حنیف“ ہے اور رسول کریم ﷺ نے ”بنو حنیفہ“ قبیلے سے نفرت کی۔ (مشکٰوة)
بتاٶ تمہارا عشق اور طبیعت کہاں گٸ؟ جس قبیلے کےنام سے رسول اللہ ﷺ نفرت کریں وہی نام تم باقی رکھو۔ اب اگر نبی پاک ﷺ سے عشق ہے تو بتاٶ یہ نام اب تک بدلا کیوں نہیں؟
اگر کہو کہ شریعت نے جاٸز کہا۔ تو جناب بتاٶ جس قبیلے کے نام سے رسول اللہ ﷺ نفرت کریں تمہاری طبیعت اس نام کو رکھنے کی یہاں تو اجازت دے دے مگر محرم میں جوازِ نکاح کے مسٸلہ پر آ کر طبیعت خراب ہو جاٸے؟
یہ دو رنگی نہیں تو اور کیا ہے؟
اگر ایک اصول وضع کیا ہے تو وہ اصول ہر جگہ ایک رکھو بدلتے کیوں ہو؟
اگرکہو کہ امامِ اعظم کو بھی ابو حنیفہ کہا جاتا ہے تو توعرض ہے کہ وہ اسکو شرعاً بھی جاٸز سمجھتے تھے طبعاً بھی جاٸز سمجھتے تھے۔ جبکہ آپ لوگ نکاح محرم کو طبعا ناجاٸز سمجھتے ہیں۔
(مزید ہم اسی طرح کے شُبے کا جواب اپنی ایک مفصل پوسٹ میں تین ماہ قبل دے چکے ہیں)
قبلہ جناب ریاض شاہ صاحب کا نام ”ریاض“ ہے۔ جبکہ اس دور کے ایک گستاخِ رسول شخص کا نام ”ریاض احمد گوھر شاھی“ کیا طبیعت اجازت دیتی ہے کہ ایسے گستاخ کے نام پر نام کو باقی رہنے دیا جاٸے؟ اگر ہاں
تو یہی طبیعت محرم میں نکاح کی حلت پر آ کر بدل کیوں جاتی ہے؟
خود اپنے نام وہ رکھو جو رسول اللہ ﷺ کی۔طبیعت کو ناپسند گزریں اور جب نکاحِ محرم کی حلت کا مسٸلہ ہو تو طبیعت نہیں مانتی۔؟
پھر ہم یزید نام سے اس لٸے بھی نفرت کرتے ہیں کہ یہ آج کل نواصب وخوارج کا شعار بن چکا ہے۔دیکھو وھابی مولوی کا نام ”ابویزید محمد دین اھلحدیث“ ہےجس نے رشید ابن رشید نامی کتاب یزید کے حق میں لکھی۔
” عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال: ما راہ المٶمنون حسنا فھو عند اللہ حسن وما راہ المٶمنون قبیحا فھو عند اللہ قبیح “۔
” یعنی: جس کام کو مومنین اچھا سمجھیں پس وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہوتا ہے۔ اور جس کام کو مومنین برا سمجھیں بس وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہو جاتا ہے“۔
[المعجم الکبیر للطبرانی، جلد4، صفحہ468، رقم: 8504، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت]
[السنن الکبریٰ للبیھقی، جلد1، صفحہ 114، مطبوعہ دار الکتب العمیة بیروت]
[المستدرک للحاکم، جلد3، صفحہ84، رقم:4465، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت]
تو جو چیز علما مجتہدین اچھا سمجیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی جسکو قبیح سمجھیں وہ عند اللہ بھی قبیح۔
اب کیونکہ اس نام کو مومنین کی جماعت قبیح سمجھتی ہے لہذا ہم بھی اس نام کو قبیح سمجھتے ہیں۔
لیکن
محرم میں نکاح کو کسی ایک بھی فقیہ عالم نےناجاٸز قرار نہیں دیا اس لٸے یہ عمل قبیح نہیں سمجھتے۔
خیال رہے کہ ایک دفعہ پھر عرض کر دوں کہ محرم الحرام میں نکاح کی شریعت نے اجازت دی ہے۔ ترغیب نہیں دلاٸی۔
جبکہ معترضین یزید نام کی ترغیب دلا رہے ہیں۔
لہذا امیرِ اھلسنت پر ناصبیت کا فتویٰ جڑ کر اعترض کرنے والے اعلی حضرت علیہ الرحمہ پر کیا فتویٰ لگاٸیں گے؟ وہ بھی محرم مں نکاح کو جاٸز قرار دے رہے ہیں۔ کیا اعلی حضرت کو بھی کہو گے کہ بیٹے کی لاش گھر میں ہو اور خوشی مناٶ گے؟
یا اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا نام لینا چھوڑ دو یا پھر انکی تعلیمات کو اپنا لو۔
دورنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
سراسر موم ہو جا یا پھر سنگ ہو جا
اللہ کریم سمجھنے کی توفیق عطا فرماٸے۔آمین
محمد اویس رضا رضوی