أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاخۡتِلَافِ الَّيۡلِ وَالنَّهَارِ وَمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ رِّزۡقٍ فَاَحۡيَا بِهِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا وَ تَصۡرِيۡفِ الرِّيٰحِ اٰيٰتٌ لِّقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور رات اور دن کے اختلاف میں اور اللہ نے آسمان سے جو رزق نازل کیا ہے، پھر اس (پانی) سے زمین کے مردہ ہونے کے بعد اس کو زندہی کیا (اس میں) اور ہوائوں کو چلانے میں اصحاب فہم و فراست کے لیے ضرور نشانیاں ہیں

اللہ تعالیٰ کی توحید پر رات اور دن کے اختلاف، بارش سے روائیدگی اور ہوائوں سے استدلال

الجاثیہ : ٥ میں فرمایا : ” اور رات اور دن کے اختلاف میں اور اللہ نے آسمان سے جو رزق نازل کیا ہے “۔ الاٰیۃ

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کے اختلاف کا بھی ذکر فرمایا ہے اور اس میں بھی اللہ سبحانہ ‘ کی توحید کی دلیل ہے کیونکہ کبھی دن رات سے لمبا ہوتا ہے اور کبھی رات دن سے لمبی ہوتی ہے اور ضروری ہے کہ اس اختلاف کا کوئی مرجح ہو اور وہ مرجح واجب ہے اور واحد ہے جیسا کہ ہم پہلے اس کی تقریر کرچکے ہیں۔

اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بارش کو نازل کرنے کا بھی ذکر فرمایا ہے اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کی دلیل ہے، کیونکہ اس بارش سے زمین میں پودے اگتے ہیں اور درخت بن جاتے ہیں اور درخت میں تنا ہوتا ہے، شاخیں ہوتی ہیں اور پتے ہوتے ہیں اور پھول اور پھل ہوتے ہیں، ان سب کی جسامت مختلف ہوتی ہے، رنگ مختلف ہوتا ہے اور خوشبو مختلف ہوتی ہے اور ہر ایک کی الگ الگ خصوصیات ہوتی ہیں، پس ضروری ہے کہ ان خصوصیات کا کوئی موجد ہو اور ضروری ہے کہ وہ موجد واجب اور واحد ہو جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں۔

اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہوائوں کے چلانے کا بھی ذکر فرمایا ہے اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کی دلیل ہے کیونکہ ہوائیں کبھی مشرق سے مغرب کی جانب چلتی ہیں اور کبھی مغرب سے مشرق کی جانب چلتی ہیں، پس ضروری ہے کہ اس اختلاف کا کوئی مرجح ہو اور ضروری ہے کہ وہ مرجح واجب اور واحد ہو۔

یومنون، یوقنون اور یعقلون فرمانے کی توجیہ

اللہ تعالیٰ نے الجاثیہ : ٣ میں فرمایا : ” آسمانوں اور زمینوں میں مؤمنوں کے لیے نشانیاں ہیں “ اور الجاثیہ : ٤ میں فرمایا : ” تمہاری اور حیوانوں کی تخلیق میں یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں “ اور الجاثیہ : ٥ میں فرمایا : ” رات اور دن کے اختلاف، بارش اور ہوائوں میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں “ پہلے ایمان والوں کا ذکر فرمایا، پھر یقین کرنے والوں کا ذکر فرمایا اور پھر عقل والوں کا ذکر فرمایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تم مومن ہو تو ان دلائل میں غور کرو اور اگر تم مومن نہیں لیکن حق کے متلاشی اور یقین کے طالب ہو تو ان دلائل کو سمجھ لو اور اگر تم حق کے متلاشی اور یقین کے طالب نہیں ہو تو کم از کم تم عقل تو رکھتے ہو، تم اپنی عقل سے ان دلائل میں غور کرو اور ان نشانیوں سے صاحب نشان تک پہنچنے کی کوشش کرو۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی توحید، سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلائل، قیامت، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے، حشر ونشر، حساب وکتاب، مؤمنوں کے لیے شفاعت، کفار کی شفاعت سے محومی، مؤمنین اور صالحین کے جنت میں دخول، کفار اور فجار کے عذاب اور ان کے دوزخ میں دخول تمام عقائد کا ذکر ہے او فقہی احکام کے اصول اور کلیات کا بیان ہے، سابقہ امتوں اور ان کے نبیوں کے احوال کا ذکر ہے، فرشتوں اور جنات کا ذکر ہے، غرض اسلام کے تمام عقائد اور احکام شرعیہ کا بیان ہے، لیکن قرآن مجید تمام دنیا کی معلومات کا انسائیکلوپیڈیا نہیں ہے، نہ قرآن مجید تاریخ اور جغرافیہ کی کتاب ہے نہ سائنس کی کتاب ہے اور یہ جو بعض علماء نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں تمام علوم مذکور ہیں بلکہ بعض نے کہا : اس میں ابتداء آفرینش سے لے کر قیامت تک کے تمام واقعات مذکور ہیں اور اس میں ہر حادثہ اور ہر واقعہ کا ذکر ہے یہ صحیح نہیں ہے، قرآن مجیدصرف ہدایت کی کتاب ہے اور عقائد اور احکام شرعیہ سے متعلق اس میں تمام احکام مذکور ہیں اور غیب کی خبریں ہیں۔

عقل کی تعریف، عقل کی اقسام اور عقل کے متعلق احادیث

اس آیت میں عقل کا ذکر ہے کہ عقل والوں کے لیے ان چیزوں میں توحید کی نشانیاں ہیں، اس لیے یہاں ہم عقل کی تعریف کررہے ہیں : عقل اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور جس علم کو انسان اس قوت سے حاصل کرتا ہے اس کو بھی عقل کہتے ہیں۔ اسی لیے حضرت علی (رض) سے یہ منقول ہے کہ عقل کی دو قسمیں ہیں : ایک عقل طبعی ہے اور ایک عقل سمعی ہے اور جب تک عقل سمعی نہ ہو عقل طبعی سے فائدہ نہیں ہوتا، عقل طبعی سے مراد وہ قوت ہے جو انسان کے دماغ میں مرکوز ہے جس سے انسان اچھے اور برے اور نیک اور بدکام میں تمیز کرتا ہے اور عقل سمعی سے مراد وہ علوم ہیں جو انسان کو لوگوں سے سن کر اور کتابوں میں پڑھ کر حاصل ہوتے ہیں، مثلاً سچ بولنا اچھا اور جھوٹ بولنا بُرا ہے، محنت سے کما کر روزی حاصل کرنا اچھا ہے اور چوری، ڈکیتی، لوٹ مار اور بھتوں سے روزی حاصل کرنا بُرا ہے، نکاح سے اولاد کا حصول اچھا ہے اور زنا سے اولاد کا حصول بُرا ہے۔

عقل کے پہلے معنی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جب اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا : کھڑ ہو، وہ کھڑی ہوگئی، پھر اس سے فرمایا : پیٹھ پھیر تو اس نے پیٹھ پھیرلی، پھر اس سے فرمایا : سامنے ہو تو وہ سامنے ہوگئی، پھر فرمایا : بیٹھ جا تو وہ بیٹھ گئی، پھر اس سے فرمایا : میں نے تجھ سے عمدہ اور تجھ سے افضل اور تجھ سے اچھی مخلوق پیدا نہیں کی، میں تیرے سب سے لیتا ہوں اور تیرے سبب سے عطا کرتا ہوں اور تیرے سبب سے پہچانا جاتا ہوں اور تیرے سبب سے ناراض ہوتا ہوں اور تیرے سبب سے ہی ثواب ہے اور تجھ پر ہی عقاب ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ١٦٣٤، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٤٣١٣، الکامل لابن عدی ج ٢ ص ٧٩٨، کتاب العقل لابن ابی الدنیا ص ١٢، اس حدیث کی سند ضعیف ہے)

اس عقل سے مراد عقل طبعی ہے جو انسان کے دماغ میں مرکوز ہے اور عقل سمعی کی طرف اشارہ ان احادیث میں ہے :

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انسان اپنی عقل کی مقدار کے مطابق ہی اہل جہاد سے ہوتا ہے اور اہل صلوٰۃ سے اور اہل صیام سے اور اپنی عقل کے مطابق ہی نیکی کا حکم دیتا ہے اور بُرائی سے روکتا ہے اور قیامت کے دن اس کی عقل کے مطابق ہی اس کو جزاء دی جائے گی۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٤٦٣٦، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٤٣١٥، تاریخ بغداد ج ١٣ ص ٨٠۔ ٧٩، کتاب العقل لابن ابی الدنیا ص ١٢، الموضوعات لابن الجوزی ج ١ ص ١٧٢، اللائی المصنوعۃ ج ١ ص ١٢٤، اس حدیث کی سند ضعیف ہے)

حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انسان نے عقل کی مثل کسی چیز کو حال نہیں کیا جو اس کو نیکی طرف ہدایت دیتی ہے اور بُرائی سے روکتی ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٤٣٦٦٠، الجامع الشعب الایمان رقم الحدیث : ٤٣٣٨، المعجم الصغیر ج ١ ص ٢٤١، مجمع الزوائد ج ١ ص ١٢١، اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔

حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے فرمایا : توفیق بہترین قائد ہے، حسن خلق بہترین قرین ہے، عقل سب سے عمدہ صاحب ہے، ادب بہترین میراث ہے، تکبر سے زیادہ کسی چیز میں وحشت نہیں۔ (شعب الایمان رقمالحدیث : ٤٦٦١، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٤٣٣٩، تاریخ بغداد ج ١١ ص ١٧١۔ ١٧٠، اس حدیث کی سند حسن ہے)

حضرت انس بن مالک (رض) نے فرمایا : عاقل وہ ہے جو اللہ کے حکم سے کسی برے کام سے رک گیا اور جس نے زمنہ کے مصائب پر صبر کیا۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٤٦٨٣، الجامع الشعب الایمان رقم الحدیث : ٤٣٥٩، اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں)

ابوبکر بن عیاش کہتے ہیں : زبان کو روکنا اور نرم گفتارعقل مندی ہے اور بدزبانی اور سخت کلامی بےعقلی ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٤٦٨٥، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٤٣٦١، اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں)

ان لوگوں کی مذمت جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے قرآن سننے کے باوجود ایمان نہیں لائے اور ان لوگوں کی مدح جو آپ سے قرآن سنے بغیر ایمان لے آئے

القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 5