أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَسَخَّرَ لَـكُمۡ مَّا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا مِّنۡهُ‌ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے، سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے فوائد کے تابع کردیا ہے، بیشک اس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں

آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کی نعمت

الجاثیہ : ١٣ میں فرمایا : ” اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے، سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے فوائد کے تابع کردیا ہے “

اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں سورج کو اور چاند کو اور ان کی گردش کو ہمارے فوائد کے لیے مسخر کردیا ہے، اگر سورج سے دن کی روشنی حاصل نہ ہوتی تو ہم کاروبار حیات کو کیسے انجام دیتے، پھر اگر سورج اپنے مقام سے زیادہ اونچا ہوتا تو ہم سردی سے منجمد ہوجاتے اور اگر زیادہ نیچے ہوتا تو جل کر بھسم ہوجاتے، اگر سورج کی حرارت نہ ہوتی تو فصلیں کیسے پکتیں اور اب شمسی توانائی کے حضوت کا دور ہے اور شمسی توانائی سے مشینیں چلائی جارہی ہیں۔

چاند کو نون سے غلہ میں اور پھلوں میں ذائقہ پیدا ہوتا ہے اور دور افتادہ دیہاتوں میں جہاں بجلی نہیں پہنچی وہاں چاند کی روشنی سے ہی رات کو گزارا کیا جاتا ہے۔

زمین اللہ تعالیٰ نے مٹی کی بنائی ہے اور اس کو قابل کاشت بنایا ہے، اس میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ اس میں بیج ڈال کر کھیت اور باغ تیار کیے جاسکتے ہیں، مٹی کے اجزاء سے مکان بنائے جاسکتے ہیں، فرض کیجئے، اگر اللہ تعالیٰ سونے، چاندی یا لوہے کی زمین بنا دیتا تو اس سے یہ فوائد کیسے حاصل کیے جاسکتے تھے، پس سبحان ہے وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان چیزوں میں اسی استعداد اور صلاحیت رکھی کہ وہ ہمارے کام آسکیں اور ہم ان سے فائدے اٹھاسکیں۔

پھر فرمایا کہ یہ سب چیزیں اس کی طرف سے ہیں یعنی ان سب چیزوں کو اس نے اپنی قدرت سے اور اپنی حکمت سے پیدا کیا ہے اور ان کو ایسے نظام کا پابند کردیا ہے جس سے اس کی مخلوق فائدہ اٹھاسکے۔

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی صفات میں غور و فکر کے متعلق احادیث

اس کے بعد فرمایا : ” اس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں “

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمینوں اور آسمانوں میں اور ان کے درمیان کی چیزوں میں غور و فکر کرنے کی ترغیب دی ہے، اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی عظمت میں اور جنت اور دوزخ میں ایک ساعت غور وفکر کرنا ایک رات کے قیام سے افضل ہے اور تمام لوگوں سے افضل وہ ہیں جو اللہ کی نعمتوں میں غور و فکر کرتے ہیں اور سب سے بدتر لوگ وہ ہیں جو اللہ سبحانہ ‘ کی نعمتوں میں غور و فکر نہیں کرتے۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٠٧١٦، اتحاف ج ١ ص ١٦، تنزیہ الشریعۃ ج ١ ص ١٤٨، کنز العمال رقم الحدیث : ٥٧١٢)

حضرت ابن عباس رضی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مخلوق میں غور و فکر کرو، خالق میں غور و فکر نہ کرو، کیونکہ تم اس کی قدر کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ (کتاب العظمۃ رقم الحدیث : ١، الجامع رقم الحدیث : ١٠٧١٦، اتحاف ج ١ ص ١٦، تنزیہ الشریعۃ ج ١ ص ١٤٨، کنزالعمال رقم الحدیث : ٥٧١٢)

حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرو، اللہ میں غور و فکر نہ کرو۔ (کتاب العظمۃ رقم الحدیث : ٣، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٣٣٤٧، الصحیۃ للالبانی رقم الحدیث : ١٧٨٩، اس کی سند ضعیف ہے)

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی نعمتوں میں غور و فکر کرو، اللہ میں غور وفکر نہ کرو۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٦٣١٠، الکامل لابن عدی ج ٧ ص ٩٥، شعب الایمان ج ١٢٠، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٣٣٤٨، اس کی سند حسن ہے)

القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 13