يَّسۡمَعُ اٰيٰتِ اللّٰهِ تُتۡلٰى عَلَيۡهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسۡتَكۡبِرًا كَاَنۡ لَّمۡ يَسۡمَعۡهَا ۚ فَبَشِّرۡهُ بِعَذَابٍ اَلِيۡمٍ ۞- سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 8
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يَّسۡمَعُ اٰيٰتِ اللّٰهِ تُتۡلٰى عَلَيۡهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسۡتَكۡبِرًا كَاَنۡ لَّمۡ يَسۡمَعۡهَا ۚ فَبَشِّرۡهُ بِعَذَابٍ اَ لِيۡمٍ ۞
ترجمہ:
وہ اللہ کی ان آیتوں کو سنتا ہے جو اس پر تلاوت کی جاتی ہیں، پھر تکبر کرتے ہوئے (اپنے کفر پر) ڈتا رہتا ہے جیسے اس نے ان آیتوں کو سنا ہی نہیں، سو (اے رسول مکرم ! ) آپ اس کو درد ناک عذاب کی بشارت دیجئے
الجاثیہ : ٨ میں فرمایا :” وہ اللہ کی ان آیتوں کو سنتا ہے جو اس پر تلاوت کی جاتی ہیں، پھر تکبر کرتے ہوئے (اپنے کفر پر) ڈتا رہتا ہے “
اس آیت میں ” یصر “ کا لفظ ہے، اس کا مصدر اصرار ہے، اس کا معنی ہے : گناہ کو منعقد کرنا اور اس پر ڈٹے رہنا اور اس گناہ سے توبہ اور اس سے رجوع کرنے سے انکار کرنا، اس کی اصل ضر ہے جس کا معنی ہے : رقم اور دینار و درہم کی تھیلی باندھنا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ کفار قرآن مجید کی تلاوت کو سنتے ہیں اور اس کے انکار پر اصرار کرتے ہیں، اس کو اللہ کا کلام نہیں مانتے اور اپنے اس قول پر جمے اور ڈٹے رہتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔
علامہ علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے کہا : یہ آیت النضر بن الحارث کے متعلق نازل ہوتی ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٦٢، مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت)
النضر بن الحارث عجم کے شہروں میں جاتا اور وہاں سے قصہ کہانیوں کی کتابیں خرید کر لاتا تھا، مثلاً رستم اور سہراب کے قصے اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو قرآن مجید سناتے تو وہ اس کے مقابلہ میں مجمع لگا کر ان قصوں کو سناتا تھا۔
القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 8