کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 19 رکوع 18 سورہ النمل آیت نمبر 32 تا 44
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْۚ-مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ(۳۲)
بولی اے سردارو میرے اس معاملہمیں مجھے رائے دو میں کسی معاملہ میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس حاضر نہ ہو
قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ وَّ اُولُوْا بَاْسٍ شَدِیْدٍ ﳔ وَّ الْاَمْرُ اِلَیْكِ فَانْظُرِیْ مَا ذَا تَاْمُرِیْنَ(۳۳)
وہ بولے ہم زور والے اور بڑی سخت لڑائی والے ہیں (ف۴۸) اور اختیار تیرا ہے تو نظر کر کہ کیا حکم دیتی ہے (ف۴۹)
(ف48)
اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اگر تیری رائے جنگ کی ہو تو ہم لوگ اس کے لئے تیار ہیں ، بہادر اور شجاع ہیں، صاحبِ قوّت وتوانائی ہیں ، کثیر فوجیں رکھتے ہیں ، جنگ آزما ہیں ۔
(ف49)
اے ملکہ ہم تیری اطاعت کریں گے تیرے حکم کے منتظر ہیں اس جواب میں انہوں نے یہ اشارہ کیا کہ ان کی رائے جنگ کی ہے یا ان کا مدعا یہ ہو کہ ہم جنگی لوگ ہیں رائے اور مشورہ ہمارا کام نہیں تو خود صاحبِ عقل و تدبیر ہے ہم بہرحال تیرا اِتّباع کریں گے جب بلقیس نے دیکھا کہ یہ لوگ جنگ کی طرف مائل ہیں تو اس نے انہیں ان کی رائے کی خطا پر آگاہ کیا اور جنگ کے نتائج سامنے کئے ۔
قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةًۚ-وَ كَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ(۳۴)
بولی بےشک جب بادشاہ کسی بستی میں (ف۵۰) داخل ہوتے ہیں اسے تباہ کردیتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو (ف۵۱) ذلیل اور ایسا ہی کرتے ہیں (ف۵۲)
(ف50)
اپنے زور و قوّت سے ۔
(ف51)
قتل اور قید اور اہانت کے ساتھ ۔
(ف52)
یہی بادشاہوں کا طریقہ ہے بادشاہوں کی عادت کا جو اس کو علم تھا اس کی بنا پر اس نے یہ کہا اور مراد اس کی یہ تھی کہ جنگ مناسب نہیں ہے اس میں مُلک اور اہلِ مُلک کی تباہی و بربادی کا خطرہ ہے ۔ اس کے بعد اس نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور کہا ۔
وَ اِنِّیْ مُرْسِلَةٌ اِلَیْهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ(۳۵)
اور میں ان کی طرف ایک تحفہ بھیجنے والی ہوں پھر دیکھوں گی کہ ایلچی کیا جواب لے کر پلٹے (ف۵۳)
(ف53)
اس سے معلوم ہو جائے گا کہ وہ بادشاہ ہیں یا نبی کیونکہ بادشاہ عزّت و احترام کے ساتھ ہدیہ قبول کرتے ہیں اگر وہ بادشاہ ہیں تو ہدیہ قبول کر لیں گے اور اگر نبی ہیں تو ہدیہ قبول نہ کریں گے اور سوا اس کے کہ ہم ان کے دین کا اِتّباع کریں وہ اور کسی بات سے راضی نہ ہوں گے تو اس نے پانچ سو غلام ا ور پانچ سو باندیاں بہترین لباس اور زیوروں کے ساتھ آراستہ کر کے زرنگار زینوں پر سوار کر کے بھیجے اور پانچ سو اینٹیں سونے کی اور جواہر سے مرصّع تاج اور مشک و عنبر وغیرہ مع ایک خط کے اپنے قاصد کے ساتھ روانہ کئے ، ہُدہُد یہ دیکھ کر چل دیا اور اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس سب خبر پہنچائی آپ نے حکم دیا کہ سونے چاندی کی اینٹیں بنا کر نوفرسنگ کے میدان میں بچھا دی جائیں اور اس کے گرد سونے چاندی سے احاطہ کی بلند دیوار بنا دی جائے اور بر وبحر کے خوبصورت جانور اور جنّات کے بچّے میدان کے دائیں بائیں حاضر کئے جائیں ۔
فَلَمَّا جَآءَ سُلَیْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ٘-فَمَاۤ اٰتٰىنِﰯ اللّٰهُ خَیْرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰىكُمْۚ-بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِیَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ(۳۶)
پھر جب وہ (ف۵۴) سلیمان کے پاس آیا سلیمان نےفرمایا کیا مال سے میری مدد کرتے ہو تو جو مجھے اللہ نے دیا (ف۵۵) وہ بہتر ہے اُس سے جو تمہیں دیا (ف۵۶) بلکہ تمہیں اپنے تحفہ پر خوش ہوتے ہو (ف۵۷)
(ف54)
یعنی بلقیس کا پیامی مع اپنی جماعت کے ہدیہ لے کر ۔
(ف55)
یعنی دین اور نبوّت اور حکمت و مُلک ۔
(ف56)
مال و اسبابِ دنیا ۔
(ف57)
یعنی تم اہلِ مفاخرت ہو ، زخارفِ دنیا پر فخر کرتے ہو اور ایک دوسرے کے ہدیہ پر خوش ہوتے ہو ، مجھے نہ دنیا سے خوشی ہوتی ہے نہ اس کی حاجت ، اللہ تعالٰی نے مجھے اتنا کثیر عطا فرمایا کہ اوروں کو نہ دیا باوجود اس کے دین اور نبوّت سے مجھ کو مشرف کیا ۔ اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے وفد کے امیر منضر بن عمرو سے فرمایا کہ یہ ہدیئے لے کر ۔
اِرْجِعْ اِلَیْهِمْ فَلَنَاْتِیَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَ لَنُخْرِجَنَّهُمْ مِّنْهَاۤ اَذِلَّةً وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ(۳۷)
پلٹ جا ان کی طرف تو ضرور ہم ان پر وہ لشکر لائیں گے جن کی اُنہیں طاقت نہ ہوگی اور ضرور ہم اُن کو اس شہر سے ذلیل کرکے نکال دیں گے یوں کہ وہ پست ہوں گے (ف۵۸)
(ف58)
یعنی اگر وہ میرے پاس مسلمان ہو کر حاضر نہ ہوئے تو یہ انجام ہوگا ، جب قاصد ہدیئے لے کر بلقیس کے پاس واپس گئے اور تمام واقعات سنائے تو اس نے کہا بے شک وہ نبی ہیں اور ہمیں ان سے مقابلہ کی طاقت نہیں اور اس نے اپنا تخت اپنے سات محلوں میں سے سب سے پچھلے محل میں محفوظ کر کے تمام دروازے مقفّل کر دیئے اور ان پر پہرہ دار مقرر کر دیئے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا انتظام کیا تاکہ دیکھے کہ آپ اس کو کیا حکم فرماتے ہیں اور وہ ایک لشکرِ گراں لے کر آپ کی طرف روانہ ہوئی جس میں بارہ ہزار نواب تھے اور ہر نواب کے ساتھ ہزاروں لشکری جب اتنے قریب پہنچ گئی کہ حضرت سے صرف ایک فرسنگ کا فاصلہ رہ گیا ۔
قَالَ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَیُّكُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ(۳۸)
سلیمان نے فرمایا اے درباریو تم میں کون ہے کہ وہ اُس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہوکر حاضر ہوں (ف۵۹)
(ف59)
اس سے آپ کا مدّعا یہ تھا کہ اس کا تخت حاضر کر کے اس کو اللہ تعالٰی کے قدرت اور اپنی نبوّت پر دلالت کرنے والا معجِزہ دکھاویں ۔ بعضوں نے کہا ہے کہ آپ نے چاہا کہ اس کے آنے سے قبل اس کی وضع بدل دیں اور اس سے اس کی عقل کا امتحان فرمائیں کہ پہچان سکتی ہے یا نہیں ۔
قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَۚ-وَ اِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ(۳۹)
ایک بڑا خبیث جِنّ بولا کہ وہ تخت حضور میں حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں (ف۶۰) اور میں بےشک اس پر قوت والا امانت دار ہوں (ف۶۱)
(ف60)
اور آپ کا اجلاس صبح سے دوپہر تک ہوتا تھا ۔
(ف61)
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا میں اس سے جلد چاہتا ہوں ۔
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(۴۰)
اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا (ف۶۲) کہ میں اُسے حضور میں حاضر کردوں گا ایک پل مارنے سے پہلے (ف۶۳) پھر جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا دیکھا کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے (ف۶۴) اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے سب خوبیوں والا
(ف62)
یعنی آپ کے وزیر آصف بن برخیا جو اللہ تعالٰی کا اسمِ اعظم جانتے تھے ۔
(ف63)
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا لاؤ حاضر کرو آصف نے عرض کیا آپ نبی ابنِ نبی ہیں اور جو رتبہ بارگاہِ الٰہی میں آپ کو حاصل ہے یہاں کس کو میسّر ہے آپ دعا کریں تو وہ آپ کے پاس ہی ہوگا آپ نے فرمایا تم سچ کہتے ہو اور دعا کی ، اسی وقت تخت زمین کے نیچے نیچے چل کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کے قریب نمودار ہوا ۔
(ف64)
کہ اس شکر کا نفع خود اس شکر گزار کی طرف عائد ہوتا ہے ۔
قَالَ نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ اَتَهْتَدِیْۤ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَهْتَدُوْنَ(۴۱)
سلیمان نے حکم دیا عورت کا تخت اس کے سامنے وضع بدل کر بیگانہ کردو کہ ہم دیکھیں وہ راہ پاتی ہے یا اُن میں ہوتی ہے جو ناواقف رہے
فَلَمَّا جَآءَتْ قِیْلَ اَهٰكَذَا عَرْشُكِؕ-قَالَتْ كَاَنَّهٗ هُوَۚ-وَ اُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَ كُنَّا مُسْلِمِیْنَ(۴۲)
پھر جب وہ آئی اس سے کہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے بولی گویا یہ وہی ہے (ف۶۵) اور ہم کو اس واقعہ سے پہلے خبر مل چکی (ف۶۶) اور ہم فرمان بردار ہوئے (ف۶۷)
(ف65)
اس جواب سے اس کا کمالِ عقل معلوم ہوا اب اس سے کہا گیا کہ یہ تیرا ہی تخت ہے دروازہ بند کرنے ، قفل لگانے ، پہرہ دار مقرر کرنے سے کیا فائدہ ہوا ، اس پر اس نے کہا ۔
(ف66)
اللہ تعالٰی کی قدرت اور آپ کی صحتِ نبوّت کی ہُدہُد کے واقعہ سے اور امیرِ وفد سے ۔
(ف67)
ہم نے آپ کی اطاعت اور آپ کی فرمانبرداری اختیار کی ۔
وَ صَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ(۴۳)
اور اُسے روکا (ف۶۸) اُس چیز نے جسے وہ اللہ کے سوا پوجتی تھی بےشک وہ کافر لوگوں میں سے تھی
(ف68)
اللہ کی عبادت و توحید سے یا اسلام کی طرف تقدم سے ۔
قِیْلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَۚ-فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّ كَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَاؕ-قَالَ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ۬ؕ-قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠(۴۴)
اُس سے کہا گیا صحن میں آ (ف۶۹) پھر جب اس نے اسے دیکھا اسے گہرا پانی سمجھی اور اپنی ساقیں(پنڈلیاں) کھولیں (ف۷۰) سلیمان نے فرمایا یہ تو ایک چکنا صحن ہے شیشوں جڑا (ف۷۱) عورت نے عرض کی اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا (ف۷۲) اور اب سلیمان کے ساتھ اللہ کے حضور گردن رکھتی ہوں جو رب سارے جہان کا (ف۷۳)
(ف69)
وہ صحن شفاف آبگینہ کا تھا اس کے نیچے آب جاری تھا ، اس میں مچھلیاں تھیں اور اس کے وسط میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت تھا جس پر آپ جلوہ افروز تھے ۔
(ف70)
تاکہ پانی میں چل کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو ۔
(ف71)
یہ پانی نہیں ہے ۔ یہ سن کر بلقیس نے اپنی ساقیں چُھپا لیں اور اس سے اس کو بہت تعجّب ہوا اور اس نے یقین کیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا مُلک و حکومت اللہ کی طرف سے ہے اور ان عجائبات سے اس نے اللہ تعالٰی کی توحید اور آپ کی نبوّت پر استدلال کیا ، اب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو اسلام کی دعوت دی ۔
(ف72)
کہ تیرے غیر کو پوجا آفتاب کی پرستش کی ۔
(ف73)
چنانچہ اس نے اخلاص کے ساتھ توحید و اسلام کو قبول کیا اور خالص اللہ تعالٰی کی عبادت اختیار کی ۔