اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَـرٰٮهُؕ قُلۡ اِنِ افۡتَـرَيۡتُهٗ فَلَا تَمۡلِكُوۡنَ لِىۡ مِنَ اللّٰهِ شَيــئًا ؕ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَا تُفِيۡضُوۡنَ فِيۡهِؕ كَفٰى بِهٖ شَهِيۡدًاۢ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَكُمۡ ؕ وَهُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ ۞- سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 8
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَـرٰٮهُؕ قُلۡ اِنِ افۡتَـرَيۡتُهٗ فَلَا تَمۡلِكُوۡنَ لِىۡ مِنَ اللّٰهِ شَيــئًا ؕ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَا تُفِيۡضُوۡنَ فِيۡهِؕ كَفٰى بِهٖ شَهِيۡدًاۢ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَكُمۡ ؕ وَهُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ ۞
ترجمہ:
یا کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اس کو گھڑ لیا ہے، آپ کہیے کہ اگر (بالفرض) میں نے اس (قرآن) کو گھڑ لیا ہوتا تو تم مجھے اللہ کے عذاب سے بالکل بچا نہیں سکتے تھے، تم اس (قرآن) کے متعلق جو کچھ کہہ رہے ہو اللہ اس کو خوب جاننے والا ہے، میرے اور تمہارے درمیان وہی کافی گواہ ہے اور وہ بہت بخشنے والا بےحد مہربان ہے
الاحقاف : ٨ میں فرمایا : یا کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اس (قرآن) کو گھڑ لیا ہے، آپ کہیے کہ اگر (بالفرض) میں نے اس (قرآن) کو گھڑ لیا ہوتا تو تم مجھے اللہ کے عذاب سے بالکل بچا نہیں سکتے تھے، تم اس (قرآن) کے متعلق جو کچھ کہہ رہے ہو اللہ اس کو خوب جاننے والا ہے، میرے اور تمہارے درمیان وہی کافی گواہ ہے اور وہ بہت بخشنے والا، بےحد مہربان ہے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے افتراء کی تہمت کا ابطال
اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ جو لوگ حق کو دیکھنے سیاندھے ہوگئے اور حق کو سننے سے بہرے بن گئے اور انہوں نے رسولوں کے وارثوں پر جادو کی تہمت لگائی اور ان کے کلام پر افتراء کی تہمت لگائی اور اس کا مذاق اڑایا تو اللہ تعالیٰ ان کو آخرت میں رسوا کر دے گا اور ان کو عذاب شدید میں مبتلا کرے گا، اس لئے ضروری ہے کہ ظاہر اور باطن کو بدعقیدگی اور برے اعمال کی نجاست سے پاک اور صاف کیا جائے، اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کیا جائے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری پوری اور کامل اتباع کی جائے اور جادو اور کرامت میں اسی سے امتیاز ہوتا ہے کیونکہ جادو کا اظہار کافروں، زندیقوں اور فاسقوں سے ہوتا ہے جو احکام شرعیہ اور متابعت سنت نبویہ کا التزام اور اہتمام نہیں کرتے۔ کفار یہ کہتے ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازخود قرآن کو گھڑ لیا ہے اور خود ایک کلام بنا کر اس کی اضافت اللہ سبحانہٗ کی طرف کردی ہے (العیاذ باللہ) ، ان کا یہ قول باطل ہے اور سخت تعجب خیز ہے کیونکہ قرآن مجید کلام معجز ہے اور ایسا کلام بنانا انسان کی قدرت سے خارج ہے، آپ کہیے کہ اگر بہ فرض محال میں نے یہ کلام از خود بنا کر اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا ہوتا تو تم مجھے اللہ کے عذاب سے چھڑانے پر قادر نہ تھے، کیونکہ ایسی صورت میں یقینا اللہ تعالیٰ مجھے عذاب دیتا اور میں اس عذاب میں مبتلا ہوجاتا جس سے خلاصی کی کوئی صورت نہیں ہے۔
صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یعنی اگر بالفرض میں دل سے بناتا اور اس کو اللہ کا کلام بتاتا تو وہ اللہ تعالیٰ پر افتراء ہوتا اور اللہ تبارک و تعالیٰ ایسے افتراء کرنے والے کو جلدعقوبت میں گرفتار کرتا ہے۔ تمہیں تو یہ قدرت نہیں کہ تم مجھے اس کی عقوبت سے بچا سکو یا اس کے عذاب کو دفع کرسکو تو کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں تمہاری وجہ سے اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتا ؟
القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 8
[…] تفسیر […]