أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّهُمۡ لَنۡ يُّغۡنُوۡا عَنۡكَ مِنَ اللّٰهِ شَيۡـئًـا‌ ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِيۡنَ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ‌ ۚ وَاللّٰهُ وَلِىُّ الۡمُتَّقِيۡنَ ۞

ترجمہ:

بیشک یہ لوگ اللہ کے مقابلہ میں آپ کے کسی کام نہ آسکیں گے اور بیشک ظالم لوگ ایک دوسرے کے حامی ہیں اور اللہ متقین کا حامی ہیں

بعض مفسرین کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت اور ادب سے محروم تفسیر

الجاثیہ : ١٩ میں فرمایا : ” بیشک یہ لوگ اللہ کے مقابلہ میں آپ کے کسی کام نہ آسکیں گے اور بیشک ظالم لوگ ایک دوسرے کے حامی ہیں اور اللہ متقین کا حامی ہیں “

امام فخر الدین رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت کا یہ معنی ہے کہ اگر آپ ان یہودیوں کے دین کی طرف مائل ہوتے تو آپ عذاب کے مستحق ہوجائیں گے اور اس وقت یہ یہودی آپ سے اللہ کے عذاب کو دور نہیں کرسکیں گے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٦٧٥) میں کہتا ہوں کہ یہ ظاہری معنی ہے اور در حقیقت یہاں پر بھی تعریض ہے اور ذکر آپ کا ہے اور مراد آپ کی امت ہے کہ اگر آپ کی امت دین کے کسی معاملہ میں ان کی طرف مائل ہوئی تو وہ عذاب کے مستحق ہوجائے گی اور اس وقت یہ یہودی آپ کی امت کے کسی کام نہیں آسکیں گے اور ان سے عذاب کو دور نہیں کرسکیں گے۔

سیدا ابوالاعلیٰ مودودی متفوی ١٣٩٩ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

یعنی اگر تم انہیں راضی کرنے کے لیے اللہ کے دین میں ردوبدل کرنا کب متصور ہے ؟ یہ وہی لکھ سکتا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت اور آپ کے ادب واحترام سے بالکل خالی ہو۔

شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی ١٣٦٩ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

یعنی ان کی طرف جھکنا تم کو خدا کے ہاں کچھ کام نہ دے گا۔

دراصل الجاثیہ ١٩۔ ١٨ کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ان کی باہمی ضٗد اور نقسانی اختلافات کی وجہ سے بہت فرقے بن گئے تھے، حدیث میں ہے کہ ان میں بہتر فرقے تھے، ہم نے ان کے اس تفرقہ کے زمانہ میں آپ کو دین کی صحیح شاہ راہ (شریعت) پر قائم کردیا ہے، لہٰذا آپ کو اور آپ کی امت پر لازم ہے کہ وہ دین اسلام کی اسی شریعت پر جمے رہیں اور اس سے سر مومنحرف نہ ہوں، مکہ کے جاہل قریش کی خواہش ہے کہ آپ ان کے ظلم اور ستم سے تنگ آکر ہمت ہار بیٹھیں اور ان کے ہم نوا ہوجائیں یا کم از کم ان کے بتوں کو بُرا کہنا چھوڑ دیں اور اہل کتاب میں سے یہودی یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے طریقہ کی موافقت کرلیں، سو آپ اپنی امت کو بتادیں کہ اگر انہوں نے ان کی موافقت کرلی تو وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی گرفت کے مستحق ہوجائیں گے اور یہ یہودی اور کفار مکہ آپ کی امت سے عذاب کو بالکل دور نہیں کرسکیں گے۔

اس کے بعد فرمایا : ” اور بیشک ظالم لوگ ایک دوسرے کے حامی ہیں اور اللہ متقین کا حامی ہیں “

دنیا میں کفار اور مشرکین ایک دوسرے کی حمایت اور نصرت کرتے ہیں لیکن آخرت میں ان کا کوئی حامی نہیں ہوگا جو ان کو اجروثواب پہنچا سکے یا ان سے عذاب کو دور کرسکے، رہے متقین اور ہدایت یافتہ لوگ تو اللہ تعالیٰ آخرت میں ان کو کامیاب اور سرفراز فرمائے گا، ان کے حق میں کی گئی شفاعت کو قبول فرمائے گا اور جن کی یہ شفاعت کریں گے اس کو بھی قبول فرمائے گا۔

القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 19