أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ثُمَّ جَعَلۡنٰكَ عَلٰى شَرِيۡعَةٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ فَاتَّبِعۡهَا وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ۞

ترجمہ:

پھر ہم نے آپ کو اس دین کی شریعت (راہ) پر گامزن کردیا، سو آپ اس شریعت کی اتباع کیجئے اور جاہل لوگوں کی خواہشوں کی پیروی نہ کیجئے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

پھر ہم نے آپ کو اس دین کی شریعت (راہ) پر گامزن کردیا، سو آپ اس شریعت کی اتباع کیجئے اور جاہل لوگوں کی خواہشوں کی پیروی نہ کیجئے بیشک یہ لوگ اللہ کے مقابلہ میں آپ کے کسی کام نہ آسکیں گے اور بیشک ظالم لوگ ایک دوسرے کے حامی ہیں اور اللہ متقین کا حامی ہیں یہ (قرآن) لوگوں کے لیے بصیرت افروز دلائل پر مشتمل ہے اور یقین کرنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جن لوگوں نے (برسرعام) گناہ کیے ہیں کیا انہوں نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ہم ان کی زندگی اور موت کو مؤمنین اور صالحین کے برابر کردیں گے، یہ کیسا بُرا فیصلہ کررہے ہیں (الجاثیہ : 18-21)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا ممتاز اور منفرد ہونا

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ بنو اسرائیل نے دین حق، دین اسلام سے صرف حسد اور بغض کی وجہ سے منہ موڑا تھا تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا کہ آپ ان کے طریقہ سے احتراز کریں اور دین حق کے ساتھ وابستہ رہیں اور ماسوا اظہار حق کے اور اثبات صدق کے آپ کو کوئی اور غرض نہیں ہونی چاہیے، اس لیے فرمایا : پھر ہم نے آپ کو اس دین کی شریعت پر گامزن کردیا، یعنی ہم نے آپ کو دین اسلام کے منہاج اور اس کے طریقہ پر ثابت اور برقرار رکھا ہے، سو آپ صرف اپنی شریعت کی اتباع کیجئے جو دلائل اور بینات سے ثابت ہے، جاہلوں کی ناجائز خواہشیں بلادلیل ہیں اور ان کے ادیان اور مذاعب ان کی خواہشوں او جہل پر مبنی ہیں، سو آپ ان کی طرف التفات نہ کیجئے۔

کلبی نے کہا : یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب سردارانِ قریش نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ آپ اپنے آبائو اجداد کے دین کی طرف رجوع کیجئے جو آپ سے افضل تھے اور آپ سے زیادہ عمر رسیدہ تھے۔

اس آیت کی یہ تفسیر بھی ہے کہ : بنو اسرائیل کے بعد ہم نے آپ کے لیے دین اسلام کی شریعت بنائی، سو آپ اس شریعت کی اتباع کیجئے، اس دین کے احکام شرعیہ کو اپنے اوپر بھی نافذ کیجئے اور اپنے پیروکاروں کے اوپر بھی اس دین کے احکام کو جاری کیجئے۔

اور اس کی یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ ہم نے آپ کو متعدد خصوصیات عطا فرما کر دوسرے نبیوں اور رسولوں سے منفرد اور ممتاز بنایا ہے اور آپ کی شریعت کو بھی سابقہ شرائع سے ممتاز اور منفر بنایا ہے اور آپ کی شریعت میں وہ خصوصی احکام رکھے ہیں جو دیگر شریعتوں میں نہیں تھے، سو آپ ان خصوصیات کی معرفت رکھیں اور اپنی شریعت پر قائم اور ثابت رہیں اور اس سے تجاوز نہ کریں اور دوسروں کی متابعت کی طرف التفات نہ کریں کیونکہ اگر آپ کے زمانہ میں حضرت موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو آپ کی اتباع کرنے کے سوا ان کے لیے اور کوئی چارہ کار نہ تھا۔

ہم نے جو کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوسرے انبیاء (علیہم السلام) سے ممتاز اور منفرد شریعت عطا فرمائی ہے جس میں ایسے خصوصیات ہیں جو ان کی شرائع میں نہیں تھیں اس کی دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو کسی اور نبی کو مجھ سے پہلے نہیں دی گئیں : (١) ایک ماہ کی مسافت سے میرا رعب طاری کرکے میری مدد کی گئی ہے (٢) تمام روئے زمین کو میرے لیے مسجد اور پاکیزگی کا آلہ (تیمم) بنادیا گیا، لہٰذا میری امت میں سے کسی شخص کو جہاں بھی نماز کا وقت آئے وہ وہیں نماز پڑھ لے (٣) اور میرے لیے مال غنیمت حلال کردیا گیا اور مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں کیا گیا تھا (٤) اور مجھے شفاعت (کبریٰ ) دی گئی ہے (٥) اور پہلے نبی کو ایک مخصوص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔

امام مسلم کی روایت میں ہے : مجھے تمام مخلوق کے لیے رسول بنایا گیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٢١، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٣٦۔ ٤٣٢)

آپ کی شریعت کے بعد کسی اور شریعت کی طرف التفات کرنا جائز نہیں

اور ہم نے جو کہا ہے کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی آپ کے زمانہ میں زندہ ہوتے تو ان کے لیے آپ کی اتباع کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا، اس کی دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) کو کسی اہل کتاب سے ان کی کوئی کتاب ملی، وہ اس کو لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ کے سامنے پڑھنے لگے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غضب ناک ہوئے اور فرمایا : اے ابن الخطاب ! کیا تم اپنے دین میں شک ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، میں تمہارے پاس صاف صاف شریعت لے کر آیا ہوں، تم اہل کتاب سے کسی چیز کے متعلق سوال نہ کرو، (مبادا) وہ تمہیں کوئی حق بات بتائیں اور تم اسی کی تکذیب کردو یا وہ تمہیں کوئی باطل بات بتائیں اور تم اس کی تصدیق کردو اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، اگر حضرت موسیٰ زندہ ہوتے تو ان کے لیے میری اتباع کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ تھا۔ (مسند احمد ج ١ ص ٣٨٧ طلبع قدیم، مسند ج ٢٣ ص ٣٤٩، رقم الحدیث : ١٥١٦٥، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٩ ھ، مسند البزار رقم الحدیث : ١٢٤، شعب الایمان رقم الحدیث : ١٧٧، شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٢٦، سنن دارمی الحدیث : ٤٣٥)

آپ کو جاہلوں کی اتباع سے منع کرنے کا محمل

اس آیت میں یہ بھی فرمایا ہے : ” سو آپ اس شریعت کی اتباع کیجئے اور جاہل لوگوں کی خواہشوں کی پیروی نہ کیجئے “

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تو یہ متصور نہیں ہے کہ آپ اس شریعت کی اتباع نہ کریں اور جاہل لوگوں کی یا بنواسرائیل کی خواہشوں کی پیروی کریں، اس لیے اس آیت میں تعریض ہے، یعنی بظاہر اس آیت میں جاہلوں کی پیروی کی ممانعت کا اسناد آپ کی طرف کیا گیا ہے اور مراد آپ کی امت ہے، گویا آپ کی امت سے یہ فرمایا ہے اور ان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس شریعت اسلام کی پیروی کریں اور جاہلوں اور یہودیوں کی شریعت کی پیروی نہ کریں اور ان کی شریعت کی طرف التفات نہ کریں جیسا کہ حسب ذیل احادیث سے ظاہر ہوتا ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل کتاب عبرانی میں تورات کو پڑھتے تھے اور اہل اسلام کے لیے اس کا عربی میں ترجمہ کرتے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب کرو اور یہ کہو : ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٥٤٢ )

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ فرماتے ہیں :

قرآن مجید پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ باقی آسمانوں کتابوں پر ایمان لانے کا معاملہ اس طرح ہے جس طرح ہم اپنے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ انبیاء سابقین (علیہم السلام) پر بھی ایمان لاتے ہیں اور ہم پر واجب یہ ہے کہ ہم اللہ عزوجل کے کلام کی معرفت حاصل کریں اور اس پر ایمان رکھیں کہ اس کا کلام اس کی ذات کی صفات میں سے ایک صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور ہماری قرأت کے ساتھ اس کے کلام کی قرأت ہوتی ہے اور یہ کلام ہمارے دلوں میں محفوظ ہے اور ہمارے مصاحف میں لکھا ہوا ہے اور اس کا ان مصاحف میں حلول نہیں ہے، جس طرح اللہ سبحانہ کا ہماری زبانوں سے ذکر ہوتا ہے اور ہمارے دلوں میں اس کا علم ہے اور ہماری مساجد میں اس کی عبادت ہوتی ہے اور اس کا ان میں حلول نہیں ہے اور اللہ کے کلام کا قلیل اور کثیر میں حصر نہیں ہے، اس کو جب عربی میں پڑھا جائے تو اس کو قرآن کہتے ہیں اور اس کو جب سریانی میں پڑھا جائے تو اس کو انجیل کہتے ہیں اور جب اس کی عبرانی میں پڑھا جائے تو اس کو تورات کہتے ہیں اور ہماری اس شریعت میں اس کا نام قرآن ہے نہ کہ وہ جس کا نام نورات اور انجیل ہے، کیونکہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جو اہل تورات اور انجیل تھے، ان کی اللہ تعالیٰ نے تکذیب کی ہے اور ان کی خیانت کی خبر دی ہے اور یہ خبر دی ہے کہ وہ اللہ کے کلام میں تحریف کرتے تھے اور دو بدل کرتے تھے اور اپنی طرف سے کتاب میں عبارت بنا کر لکھ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور وہ جان بوجھ کر اللہ سبحانہ ‘ پر جھوٹ باندھتے تھے، لہٰذا جب مسلمان ان کی کتاب سے کوئی چیز پڑھے گا تو وہ اس سے محفوظ نہیں ہے کہ درحقیقت کتاب کی وہ عبارت یہود و نصاریٰ کی گھڑی ہوئی ہو۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : تم اہل کتاب سے کسی چیز کے متعلق کیوں سوال کرتے ہو، حالانکہ تمہارے پاس وہ کتاب موجود ہے جس کو اللہ عزوجل نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے اور اس میں تم سب سے تازہ اور نئی خبروں کو پڑھتے ہو جو پرانی نہیں ہوئیں، پھر اللہ عزوجل نے تم کو ان کے متعلق یہ خبر دی ہے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف کی ہے اور اس کو بدل دیا ہے اور وہ اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ کر پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے بدلہ میں تھوڑی قیمت لے لیں، سنو اللہ تعالیٰ نے تمہیں علم کے متعلق ان سے سوال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ کی قسم ! ہم نے ان کا کوئی آدمی نہیں دیکھا جو تم سے اس چیز کے متعلق سوال کرتا ہو جو تم پر نازل کی گئی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٣٦٣، شعب الایمان رقم الحدیث : ١٧٥)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 18