مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّىؕ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا عَمَّاۤ اُنۡذِرُوۡا مُعۡرِضُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 3
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّىؕ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا عَمَّاۤ اُنۡذِرُوۡا مُعۡرِضُوۡنَ ۞
ترجمہ:
ہم نے آسمانوں اور زمینوں کو اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے اور ایک معین مدت تک کے لئے، اور کفار اس عذاب سے روگردانی کرنے والے ہیں جس سے انہیں ڈرایا گیا ہے
حق کا معنی اور مراد
الاحقاف : ٣ میں فرمایا : ہم نے آسمانوں اور زمینوں کو اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے
آسمانوں اور زمینوں کے درمیان کی سب چیزوں سے مراد ہیں : عناصر اربع (آگ، مٹی، پانی اور ہوا) بادل، بارش، جمادات، نباتات، حیوانات، انسان، ملائکہ اور جنات وغیرہ ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، یعنی غرض صحیح اور حکمت بالغہ کے ساتھ اور اس زمین کو مکلفین کے لئے دار قرار بنادیا تاکہ قیامت کے دن ان کو جزا دے جنہوں نے نیک عمل کئے اور ان کو سزا دے جنہوں نے برے عمل کئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو عبث اور بےفائدہ نہیں بنایا، ہر چیز کو کسی حکمت سے بنایا ہے اور ہر چیز کو صرف حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے اور ہر چیز کی ایک حقیقت ہے جس کے لئے اس کو پیدا فرمایا ہے اس سلسلہ میں یہ حدیث ہے :
حضرت حارث بن مالک انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا : اے حارث ! تم نے کس حال میں صبح کی ؟ انہوں نے کہا : میں نے اس حال میں صبح کی کہ میں برحق مومن تھا، آپ نے فرمایا : غور کرو تم کیا کہہ رہے ہو ؟ پس بیشک ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے پس تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے ؟ میں نے کہا : میں نے اپنے نفس کو دنیا سے بےرغبت کرلیا اور اس کے لئے میں نے شب بیداری کی اور دن میں مطمئن رہا اور گویا کہ میں اپنے رب کے عرش کو صاف صاف دیکھ رہا ہوں اور گویا کہ میں اہل جنت کی طرف دیکھ رہا ہوں وہ ایک دوسرے کی زیارت کر رہے ہیں اور گویا کہ میں اہل دوزخ کی طرف دیکھ رہا ہوں وہ اس میں بھوک کی شدت سے چلا رہے ہوں گے، تب آپ نے تین بار فرمایا : اے حارث ! تم نے (اللہ تعالیٰ کی) معرفت حاصل کرلی۔
(المعجم الکبیر ج ٣ ص ٢٦٧۔ ٢٦٦، رقم الحدیث : ٣٣٦٧، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ٤٣، مسند البزار رقم الحدیث : ٣٢، کنز العمال الحدیث : ٣٦٩٨٨)
اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ حضرت حارث نے کہا کہ میں صبح کو برحق مومن تھا، پھر انہوں نے حق کی تفسیر کی جس کا خلاصہ اللہ عزوجل کی معرفت ہے، اور زیر تفسیر آیت میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں۔
اس آیت میں یہ دلیل بھی ہے کہ قیامت کا واقع ہونا اور مرنے کے بعد اٹھنا برحق ہے کیونکہ اگر قیامت قائم نہ ہو اور مردوں کو زندہ نہ کیا جائے تو جن مظلوموں کا دنیا میں ظالم سے بدلہ نہیں لیا گیا وہ بغیر جزاء کے رہ جائیں گے اور ظالم بغیر سزا کے رہ جائیں گے، اسی طرح کفار بغیر عذاب کے اور مومنیں بغیر ثواب کے رہ جائیں گے اور یہ اس حقیقت کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ص رف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
اس کے بعد فرمایا : اور ایک معین مدت تک کے لئے۔
آیت کے اس حصہ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جہان کو اس لئے نہیں پیدا کیا کہ یہ ابدالٰا باد تک باقی رہے بلکہ اس جہان کو ملفین کے لئے دارالعمل بنایا ہے کہ وہ اس دنیا میں نیک عمل کریں اور آخرت میں اس کی اچھی جزا پائیں، پھر ایک وقت مقرر پر اللہ تعالیٰ اس جہان کو فنا کر دے گا اور اس آیت میں معین مدت سے وہی وقت مراد ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں اپنی ذات اور صفات اور اپنی توحید پر دلائل نصب فرمائے تاکہ لوگ اپنی عقل سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں اور ان نشانیوں سے صاحب نشان تک پہنچ سکیں ان کی آسانی کے لئے انبیاء اور رسلم (علیہم السلام) کو مبعوث فرمایا، ان کی ہدایت کے لئے کتابیں اور صحائف نازل کے اور رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ ان کو آخرت کے اجر وثواب کی طرف رغبت دی اور دوزخ کے عذاب سے ڈرایا اور یہ کفار ان دلائل میں غور و فکر کرنے سے مسلسل اجتناب اور اعراض کرتے رہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلیل سے اعراض کرنا دین اور دنیا میں مذموم ہے۔
اللہ عزوجل اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن مجید کا انکار، استخفاف اور استحقار کفر ہے
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس جرم اور گناہ کے عذاب سے اللہ عزوجل اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ڈرایا ہو، اس سے اعراض کرنا یا اس کا انکار کرنا یا اس کا استخفاف کرنا (اس کو معمولی اور ہلکا جاننا) کفر ہے۔
ہمارے فقہاء کرام نے اللہ عزوجل اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن مجید کے انکار اور استخفاف (یعنی ان کو ہلکا اور معمولی جاننے) کو کفر قرار دیا ہے۔ اسی طرح فرائض اور سنن کے انکار اور استخفاف کو بھی کفر قرار دیا ہے۔
علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ٩٧٠ ھ لکھتے ہیں :
جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت بیان کرے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہے یا اس کے اسماء میں سے کسی اسم کا مذاق اڑائے یا اس کے احکام میں سے کسی حکم کا مذاق اڑائے یا اس کے وعد اور وعید کا انکار کرے یا اس کا شریک مانے یا اس کا بیٹا مانے یا اس کی بیوی مانے یا اس کی طرف جہل، عجز یا نقص کی نسبت کرے تو اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور جب وہ کہے کہ اللہ کے فعل میں کوئی حکمت نہیں ہے تو اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور اس کا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالیٰ کفر سے راضی ہوتا ہے تب بھی اس کو کافر قرار دیا جائے گا۔ (البحر الرائق ج ٥ ص ١٢٠، مطبوعہ مصر، عالم گیری ج ٢ ص ٢٥٨، مطبوعہ مصر)
جس نے کسی نبی کی نبوت کا اقرار نہیں کیا یا جو کسی رسول کی کسی سنت سے راضی نہیں ہوا وہ کافر ہوگیا۔
(عالم گیری ج ٢ ص ٢٦٤، مطبوعہ مصر، ١٣١٠ ھ)
علامہ محمد بن محمد ابن البزار الکردری المتوفی ٨٢٧ ھ لکھتے ہیں :
ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فی الحال ایمان لانا واجب ہے اور جو شخص یہ ایمان لایا کہ آپ رسول ہیں اور اس پر ایمان نہیں لایا کہ آپ خاتم الرسل ہیں اور آپ کا دین قیامت تک منسوخ نہیں ہوگا وہ کافر ہوگ یا، ایک شخص نے کہا : جب بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھانا کھاتے تھے تو انگلیاں چاٹتے تھے، پھر کہا : یہ بےادبی ہے تو وہ کافر ہوگیا۔ کہا گیا کہ ناخن کاٹنا سنت ہے، اس نے کہا : میں نہیں کاٹوں گا خواہ سنت ہو تو وہ کافر ہوگیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب کسی شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی سنت کا استخفاف کیا یا آپ کی احادیث میں سے کسی حدیث کا استخفاف کیا تو وہ کافر ہوگیا۔
(فتاوی بزاز یہ علی ھامش الہندیہ ج ٦ ملتقطاً ، مطبوعہ مصر، ١٣١٠ ھ)
ملا علی بن سلطان محمد القاری الحنفی المتوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں :
” خلاصۃ الفتاویٰ “ میں مذکور ہے کہ جس شخص نے کسی حدیث کو رد کیا، تو بعض مشائخ نے یہ کہا کہ وہ کافر ہوجائے گا اور متاخرین نے کہا : اگر وہ حدیث متواتر ہو تو پھر وہ کافر ہوجائے گا، میں کہتا ہوں کہ یہی قول صحیح ہے، ہاں اگر اس نے کسی خبر واحد کو بہ طریقہ استخفاف و استحقار اور انکار رد کیا تو پھر وہ کافر ہوجائے گا۔ (شرح فقہ اکبر ص ١٦٦، مطبوعہ مصر)
قاضی ابو الفضل عیاض بن موسیٰ مالکی اندلسی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں :
تمام وہ لوگ جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دی یا آپ کو عیب لگایا یا آپ کی ذات میں کوئی نقص ملایا، یا آپ کے نسب میں یا آپ کے دین میں یا آپ کے کسی وصف اور کسی خصلت میں نقص ملایا یا نقص کی تعریض کی یا کسی بری چیز کے ساتھ آپ کو تشبیہ دی یا آپ کی توہین کی یا آپ کو چھوٹا اور کم تر کہا یا آپ کو پست کیا اور جھکایا یا آپ کی مذمت کی تو وہ آپ کو سبّ وشتم کرنے والا ہے اور آپ کو گالی دینے والا ہے اور اس کا وہی حکم ہے جو آپ کو گالی دینے والے کا حکم ہے، اس کو قتل کردیا جائے گا جیسا کہ ہم اس کو بیان کریں گے اور اس میں کسی چیز کا استثناء نہیں ہے خواہ ان چیزوں کی وہ آپ کی طرف صراحۃً نسبت کرے یا کنایۃً کرے۔ اسی طرح جو شخص آپ کو لعنت کرے یا آپ کو بددعا دے یا آپ کے نقصان کی تمنا کرے یا بہ طور مذمت آپ کی طرف ایسی چیز کی نسبت کرے جو آپ کی شان کے لائق نہیں ہے یا آپ کا استہزاء کرے یا آپ کے متعلق ناشائستہ کلام کرے یا آپ کے عوارض بشریہ کی وجہ سے آپ پر طعن کرے تو (ایسا شخص کافر ہے اور) اس کو قتل کرنے پر عہد صحابہ سے لے کر آج تک کے علماء اور ائمہ فتویٰ کا اجماع ہے۔ (الشفاء ج ٢ ص ١٨٨، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
نیز قاضی عیاض لکھتے ہیں :
جس شخص نے قرآن مجید کا یا مصحف میں سے کسی چیز کا استخفاف کیا یا اس کو گالی دی یا اس کا انکار کیا یا اس کے کسی حرف کا انکار کیا یا کسی آیت کا انکار کیا یا اس کی کسی چیز کی تکذیب کی یا قرآن مجید میں مذکور کسی حکم یا کسی خبر کی تکذیب کی یا قرآن نے جس چیز کی نفی کی ہے اس کو ثابت کیا یا قرآن کریم نے جس چیز کو ثابت کیا ہے اس کی نفی کی یا اس کی کسی چیز میں شک کیا تو اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ وہ شخص کافر ہوگیا۔ (الشفاء ج ٢ ص ٢٥٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی ٧٩١ ھ لکھتے ہیں :
اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بعض معاصی ایسے ہیں جن کو شارع (علیہ السلام) نے تکذیب کی علامت قرار دیا ہے اور ان کا اس طرح ہونا دلائل شرعیہ سے معلوم ہے جیسے بت کو سجدہ کرنا اور مصحف (قرآن مجید) کو گندگی میں پھینک دینا اور کلمات کفریہ بولنا جن کا دلائل سے کفر ہونا ثابت ہے۔ (شرح عقائد نسفی ص ٨٣، مطبوعہ کراچی)
القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 3