هٰذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحۡمَةٌ لِّقَوۡمٍ يُّوۡقِنُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 20
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
هٰذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحۡمَةٌ لِّقَوۡمٍ يُّوۡقِنُوۡنَ ۞
ترجمہ:
یہ (قرآن) لوگوں کے لیے بصیرت افروز دلائل پر مشتمل ہے اور یقین کرنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے
بصیرت کے معنی کی تحقیق
الجاشیہ : ٢٠ میں فرمایا : ” یہ (قرآن) لوگوں کے لیے بصیرت افروز دلائل پر مشتمل ہے اور یقین کرنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے “
اس قرآن میں عقائد اور اصول ہیں اور احکام شرعیہ ہیں، رشد اور ہدایت کے لیے واضح نشانیاں ہیں، نیک کام کرنے والوں کے لیے اجروثواب کی بشارتیں ہیں اور بدکاروں کے لیے عذاب کی وعیدیں ہیں اور ان چیزوں سے دلوں میں نور اور بصیرت کا حصول ہوتا ہے اور جس طرح روح حیات کا سبب ہوتی ہے اسی طرح قرآن مجید نور اور بصیرت کے حصول کا سبب ہے اور جو شخص قرآن مجید کو پڑھنے اور اس میں غور و فکر کرنے سے عاری ہوتا ہے وہ نور اور بصیرت سے محروم ہوجاتا ہے اور وہ اس مردہ کی طرح ہوتا ہے جس میں نہ کوئی حسن ہوتی ہے اور نہ حیات ہوتی ہے، قرآن مجید کی دیگر آیات میں بھی قرآن کریم پر بصائر کا اطلاق فرمایا ہے :
قد جاء کم بضائر من ربکم۔ (الانعام : 104)
بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع آچکے ہیں۔
بصائر بصیرت کی جمع ہے، جو دراصل دن کی روشنی کا نام ہے، یہاں اس سے مراد وہ دلائل اور براھین ہیں جن کو قرآن مجید نے بار بار بیان کیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی دلائل کو بار بار بیان فرمایا ہے، جو ان دلائل کو دیکھ کر ہدایت کا راستہ اختیار کرے گا اس میں اسی کا فائدہ ہے اور جو ان دلائل کو دیکھنے کے باوجود ہدایت کا راستہ نہیں اختیار کرے گا اس میں اسی کا نقصان ہے۔
بصر آنکھ سے ادراک کرنے کو کہتے ہیں، جیسے قرآن مجید میں ہے :
مازاغ البصر وما طغی (النجم :17) نہ آنکھ بہکی نہ حد سے بڑھی اور دل میں جو قوت مدر کہ رکھی گئی ہے اس کو بصیرت کہتے ہیں، قرآن مجید میں ہے :
ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ۔ (یوسف :108)
میں پوری معرفت اور تحقیق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے رہا ہوں۔
اور بصر کی جمع ابصار آتی ہے اور بصیرت کی جمع بصائر آتی ہے۔ (المفردات ج ١ ص ٦٣۔ ٦٢، ملخصا مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس نور کے ساتھ انسان اجسام اور محسوسات کا ادراک کرتا ہے اس کو بصر کہتے ہیں اور جس نور کے ساتھ انسان معانی اور معقولات کا ادراک کرتا ہے اس کو بصیرت کہتے ہیں۔
قرآن مجید کا ہدایت اور رحمت ہونا
نیز فرمایا : یہ قرآن ہدایت ہے یعنی گمراہی کے اندھیروں سے ہدایت کا نور عطا کرنے والی ہے اور فرمایا : یہ قرآن رحمت ہے، یعنی یہ قرآن ایک عظیم رحمت ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت کاملہ ہے کیونکہ تمام دنیاوی اور اخروی سعادات اس قرآن مجید پر عمل کرنے سے یقین کرنے والوں کو حاصل ہوتی ہیں۔
یقین کرنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو نور بصیرت سے مقام یقین تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جب ان کو یہ نور حاصل ہوتا ہے تو ان کے سامنے حق اور باطل منکشف ہوجاتا ہے اور اس معاملہ میں لوگوں کے کئی مراتب اور درجات ہیں، بعض وہ ہیں جو اشیاء اور حقائق کو عقل کے نور سے جانچتے ہیں اور بعض ان کو فراست کے نور سے پرکھتے ہیں اور بعض ان کو ایمان کے نور سے دیکھتے ہیں اور بعض ان کو یقین کے نور سے دیکھتے ہیں اور بعض احسان کے نور سے دیکھتے ہیں اور بعض عرفان کے نور سے دیکھتے ہیں اور بعض آنکھ کے نور سے دیکھتے ہیں اور جو شخص بصیرت کے جس درجہ پر فائز ہو وہ اشیاء اور حقائق کو اسی درجہ کے اعتبار سے دیکھتا ہے۔
قرآن مجید کے ہدایت اور رحمت ہونے کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ ہماری خامیوں اور ان کی اصلاح کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
قتادہ نے کہا : قرآن تمہاری بیماری اور دواء دونوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے، رہی تمہاری بیماری تو وہ تمہارے گناہ ہیں اور رہی تمہاری دوا تو وہ استغفار ہے۔ (شعب الا یمان ج ٥ ص ٤٢٧، رقم الحدیث : ٧١٤٦، درالکتب العلمیہ، بیروت)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں تمہاری بیماری اور دواء پر رہنمائی نہ کروں، تمہاری بیماری گناہ ہیں اور تمہاری دواء استغفار ہے۔ (شعب الایمان ج ٥ ص ٤٢٨، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
توحید کے مراتب
سب سے بڑا گناہ شرک ہے اور اس کا تدارک اور علاج توحید ہے اور توحید کے کئی مراتب ہیں، توحید الافعال، توحید الصفات اور توحید الذات۔ توحید الافعال کی طرف اشارہ اس آیت میں ہیں : وعلی اللہ فلیتوکل المتوکلون (ابراہیم :12) اور توکل کرنے والے اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔ توکل توحید الافال کا نتیجہ ہے، کیونکہ توکل کا معنی ہے : اپنے معاملات کو اپنے مالک کے سپرد کردینا اور پھر اسی پر اعتماد کرنا۔ اور توحید الصفات کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے :
یا یتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ (الفجر :27-28)
اے نفس مطمئنہ ! اپے رب کی طرف اس حال میں لوٹ جا کہ تو اس سے راضی ہو وہ تجھ سے راضی ہو
کیونکہ انسان جب اللہ تعالیٰ کی صفت ارادہ اور صفت قضاء قدر پر راضی ہوتا ہے تو اس کے اوپر جو مصائب اور آلام آتے ہیں وہ ان کی شکایت نہیں کرتا اور وہ صرف یہ سوچ کر خوش اور راضی رہتا ہے کہ اس کے مالک اور مولیٰ کی طرف سے اس پر جو حال بھی طاری کیا جائے وہ اس کا کرم ہے اور اس کا لطف ہے اور تقدیر کے نافذ ہونے سے وہ خوشی، مطمئن اور راضی ہوتا ہے اور یہ مرتبہ توحید الصفات کا ثمرہ ہے۔
اور توحید الذات کی طرف اشارہ ان آیتوں میں ہے :
کل شیء ھالک الا وجھہ۔ (القصص : 88) اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے۔ کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلل والکرام (الرحمن :26-27) زمین پر جو بھی ہیں وہ سب فنا ہونے والے ہیں صرف آپ کے رب کی ذات باقی رہے گی جو جلال اور اکرام والی ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توحید کے ان تینوں مراتب پر ایمان عطا فرمائے۔
القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 20