وَاِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلۡحَقِّ لَـمَّا جَآءَهُمۡۙ هٰذَا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌؕ ۞- سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 7
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلۡحَقِّ لَـمَّا جَآءَهُمۡۙ هٰذَا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌؕ ۞
ترجمہ:
اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو کفار اس حق کے متعلق کہتے ہیں ج ان کے پک اس آچکا ہے یہ کھلا ہوا جادو ہے
کفار قرآن مجید کو جادو کیوں کہتے تھے ؟
الاحقاف : ٧ میں فرمایا : اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو کفار اس حق کے متعلق کہتے ہیں جو ان کے پاس آچکا ہے یہ کھلا ہوا جادو ہے
اور جب کفار کے سامنے ہماری ان آیات کی تلاوت کی جاتی ہے جن میں الوہیت کی نشانیاں ہیں اور توحید پر دلائل ہیں اور (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ثبوت ہے، قرآن مجید کے معجز اور اللہ سبحانہٗ کے کلام ہونے کا بیان ہے اور حلال اور حرام کے واضح احکام ہیں، قیامت اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے، حشر و نشر اور جزاء اور سزا کے براہین ہیں تو کفار ان آیات کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ کھلا ہوا جادو ہے اور ان کو جادو کہنے سے ان کا منشاء یہ تھا کہ جس طرح جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اس طرح ان آیات کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 7