وَتَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِيَةً كُلُّ اُمَّةٍ تُدۡعٰۤى اِلٰى كِتٰبِهَا ؕ اَلۡيَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 28
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَتَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِيَةً كُلُّ اُمَّةٍ تُدۡعٰۤى اِلٰى كِتٰبِهَا ؕ اَلۡيَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور آپ دیکھیں گے کہ ہر جماعت (اس دن) گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہوگی، ہر جماعت کو اس کے صحیفہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا، (ان سے کہا جائے گا :) آج تمہیں ان کاموں کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے
آیا قیامت کے دن سب گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے یا صرف کفار ؟
الجاثیہ : ٢٨ میں فرمایا : ” اور آپ دیکھیں گے کہ ہر جماعت (اس دن) گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہوگی “۔ الاٰیۃ
اس آیت میں ” جاثیۃ “ کا لفظ ہے، جثو کا معنی ہے : گھٹنوں کے بل بیٹھنا، جیسے مجرم حاکم کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہے، اس دن ہر امت جس میں مومن بھی ہوں گے اور کافر بھی قیامت کے دن کے ہولناک حالات اور خوف اور دہشت سے گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوگی اور اس بات کی منتظر ہوگی کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور اس کے متعلق کیا فیصلہ کیا جائے گا، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ خوف اور ہشت سے گھٹنوں کے بل بیٹھنا تو صرف کفار کے لائق ہے، کیونکہ مؤمنین کو قیامت کے دن کوئی خوف نہیں ہوگا، اس کا جواب یہ ہے کہ قیامت کے دن پہلے مرحلہ میں خوف اور دہشت میں مؤمنین بھی کفار کے ساتھ شامل ہوں گے جب اللہ تعالیٰ پُر جلال آواز میں فرمائے : ” لیمن الملک الیوم “ (المومن :16) اللہ ہی کے لیے جو واحد قہا رہے۔ ایسے وقت میں سب خوف اور دہشت سے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے، پھر دوسرے مرحلہ میں جب شفاعت کبریٰ ہوگی اور مجرموں کو مؤمنوں سے الگ کردیا جائے گا اس وقت مومن مطمئن ہوں گے اور کافر بدستور خوف اور دہشت میں مبتلا ہوں گے جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے۔
وجوہ یومئذ مسفرۃ ضاحکۃ مستبشرۃ ووجوہ یومئذ علیھا غبرۃ ترھقھا قترہ اولئک ھم الکفرۃ الفجرۃ (العبس :38-42)
اس دن بہت چہرے روشن ہوں گے جو ہنستے ہوئے خوش وخرم ہوں گے اور بہت چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے ان پر سیاہی چڑھی ہوئی ہوگی وہی لوگ کافر بدکار ہوں گے
حضرت سلمان فارسی (رض) نے فرمایا : قیامت کی دن دس سال تک لوگ گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے حتیٰ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پکار کر کہیں گے : اے میرے رب ! میں اپنے نفس کے سوا تجھ سے کوئی سوال نہیں کرتا۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ١٨٨)
کعب احبار نے حضرت امیر المؤمنین عمر (رض) سے کہا : قیامت کے روز دوزخ چنگھاڑ رہی ہوگی اور اس وقت ہر مقرب فرشتہ اور ہر نبی مرسل دوزانو بیٹھا ہوا ہوگا، حتیٰ کہ خلیل الرحمان (علیہ السلام) پر کہیں گے : اے میرے رب ! آج میں تجھ سے اپنے نفس کے سوا اور کسی چیز کا سوال نہیں کرتا۔ حتیٰ کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہ کہیں گے کہ آج کی دن میں اپنے نفس کے سوا تجھ سے کسی اور چیزکا سوال نہیں کرتا، میں تجھ سے اپنی ماں مریم کے متعلق بھی سوال نہیں کرتا۔ (تفسیرابن کثیر ج ٤ ص ١٦٥، روح البیان ج ٨ ص ٦١٠)
امام سعید بن منصور، امام احمد اور امام بیہقی نے عبدللہ بن باباہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گویا میں دوزخ کے قریب تمہیں ٹیلوں پر دیکھ رہا ہوں، پھر سفیان نے اس آیت کو پڑھا : ” وتری کل امۃ جاثیۃ “ (الجاثیہ : ٢٨، الدرالمنثور ج ٧ ص ٣٧١) امام ابن مردویہ نے حضرت ابن عمر (رض) سے الجاثیہ : ٢٨ کی تفسیر روایت کیا : ہر امت اپنے نبی کے ساتھ ہوگی، حتیٰ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ٹیلہ پر آئیں گے اور آپ تمام مخلوق سے بلند ہوں گے، پس یہی مقام محمود ہے۔ (الدرامثور ج ٧ ص ٣٧١)
جاثیہ کی تاویلات
امام علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے الجاثیہ کی حسب ذیل تاویلات لکھی ہیں :
(١) مجاہد نے کہا : اس کا معنی ہے : مستوفزۃ (اس طرح بیٹھی ہوئی کہ جلدی اٹھ سکے) ، سفیان نے کہا کہ مستوفزا اس شخص کو کہتے ہیں جس کے زمین پر صرف گھٹنے اور انگلیوں کی پوریں لگی ہوئی ہوں۔
(٢) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس کا معنی ہے : جتمعہ
(٣) مؤرج نے کہا : اس کا معنی ہے : خشوع و خضوع کرنے والی جماعت۔
(٤) حسن نے کا : اس کا معنی ہے : زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی۔
پھر یحییٰ بن سلام نے کہا : یہ صرف کفار کے متعلق ہے، یعنی صرف وہی گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے ہوں گے، دوسروں نے کہا کہ یہ تمام مؤمنوں اور کافروں کے متعلق ہے، وہ سب حساب کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٦٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
لوگوں کو ان کے صحائف اعمال کی طرف بلانا
اس کے بعد فرمایا : ” ہر جماعت کو اس کے صحیفہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا “۔
اس کی تفسیر میں حسب ذیل اقوال ہیں :
(١) ہر امت کو اس کے حساب کے لیے بلایا جائے گا۔
(٢) کلبی نے کہا : ہر امت کے صحیفہ اعمال میں اس کے جو اعمال لکھے ہوئے ہیں، خواہ خیر ہوں یا شر ہوں اس امت کو ان کے لکھے ہوئے صحائف کی طرف بلایا جائے گا۔
(٣) جاحظ نے کہا : ہر امت کو اس کتاب کی طرف بلایا جائے گا جو اس کے رسول کے اوپر نازل کی گئی ہے۔ اس کے بعد فرمایا :” آج تمہیں ان کاموں کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے۔ “
ان سے کہا جائے گا : جس کا عمل ایمان ہے اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی جزاء دے گا اور جس کا عمل کفر اور شرک ہے، اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ کی سزا دے گا جیسا کہ حسب ذیل احادیث میں ہے :
مؤمنوں اور کافروں کے جزاء کے متعلق احادیث
حضرت صفوان بن عسال (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب قیامت کا دن ہوگا تو ایمان اور شرک اپنے رب کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں گے، اللہ تعالیٰ ایمان سے فرمائے گا : جائو تم اور تمہارے اہل جنت میں چلے جائو۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٤٧٧، کنز العمال رقم الحدیث ٢٩٤)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نیکیاں کرنے والوں کو ایک جگہ جمع فرمائے گا اور ان سے ارشاد فرمائے گا : یہ تمہاری نیکیاں ہیں، ان کو میں نے قبول فرما لیا، سو ان کو لے، وہ کہیں گے : اے ہمارے معبود ! ہم ان نیکیوں کا کیا کریں گے، تو ہی ان نیکیوں کو لینے کا مستحق ہے، سو تو ہی لے لے، اللہ عزوجل فرمائے گا : میں ان نیکیوں کا کیا کروں گا، میں تمام نیکیوں سے بڑھ کر نیک ہوں، تم ان نیکیوں کو گنہگاروں میں تقسیم کردو، پھر وہ شخص اپنے ایک دوست سے ملے گا جس کے گناہ پہاڑوں کی طرح ہوں گے، وہ اپنی نیکیوں میں سے کچھ نیکیاں اس کو دے گا تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ (تاریخ اصفہان ٢ ص ٤٦ (لندن) ، جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٤٦٨ )
حضرت ابوموسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو ایک جگہ جمع فرمائے گا، پھر ہر امت کے سامنے اس کے اس معبود کو لایا جائے گا جس کی وہ دنیا میں عبادت کرتا تھا، پھر ان سب کو دوزخ میں داخل کردے گا اور موحدین باقی رہ جائیں گے، ان سے کہا جائے گا : تم کس کے انتظار میں ہو ؟ وہ کہیں گے : ہم اپنے رب کے منتظر ہیں جس کی ہم بن دیکھے عبادت کرتے تھے، ان سے کہا جائے گا : کیا تم اس کو پہچانتے ہو ؟ وہ کہیں گے : اگر ہمارا رب چاہے گا تو ہمیں اپنی پہچان کرادے گا، پھر اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا، تو وہ سب سجدہ میں گرجائیں گے، پھر ان سے کہا جائے گا : اے اہل توحید ! اپنے سروں کو اٹھائو، بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جنت کو واجب کردیا ہے اور تم میں سے ہر شخص کے بدلہ میں ایک یہودی یا نصرانی کو دوزخ میں داخل کردیا جائے گا۔ (تاریخ اصفہان ج ١ ص ٢٥١، حلیۃ الاولیاء ج ٥ ص ٣٦٣، جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٤٧٣، کنزالعمال رقم الحدیث : ٢٩٣)
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم میدان محشر میں تمام امتوں سے بلندی پر ہوں گے، پھر باقی امتوں کو علی الترتیب ان کے بتوں کے ساتھ بلایا جائے گا، اس کے بعد ہمارا رب جلوہ افروز ہوگا اور فرمائے گا : تم کس کو دیکھ رہے ہو ؟ لوگ کہیں گے : ہم اپنے رب کو دیکھ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں تمہارا رب ہوں، لوگ کہیں گے اور ہر شخص کو ایک نور ملے گے خواہ اور وہ منافق ہو یا مومن اور لوگ اس نور کے پیچھے چلیں گے اور جہنم کے پل کے اوپر کانٹے دار جائیں گے۔ نجات پانے والے مسلمانوں میں سے جو پہلا گروہ ہوگا ان کے چہرے چودھویں کی رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے یہ گروہ ستر ہزارافراد پر مشتمل ہوگا اور یہی وہ لوگ ہوں گے جو بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد جائیں گے ان کے چہرے سب سے روشن ستارے کی طرح ہوں گے، اس کے بعد شفاعت شروع ہوگی اور صلحاء شفاعت کریں گے حتیٰ کہ جن لوگوں نے کلمہ طیبہ پڑھا ہوگا اور ایک جَو کے برابر بھی کوئی نیکی کی ہوگی ان کو دوزخ سے نکال کر جنت کے سامنے ڈال دیا جائے گا، پھر جنت والے ان پر پانی کے چھینٹے ڈالیں گے جس سے وہ اس طرح تروتازہ ہوجائیں گے جیسے سیلاب کے پانی کی مٹی میں سے دانہ ہرا بھرا نکل آتا ہے، ان سے جلن کے آثار جاتے رہیں گے، پھر ان سے ان کی خواہش پوچھی جائے گی اور ان کو دنیا اور اس سے دس گناہ زائد علاقہ جنت میں دے دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث ١٩١، الرقم المسلسل : ٤٦١ )
القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 28