وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ الۡكِتٰبَ وَالۡحُكۡمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقۡنٰهُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلۡنٰهُمۡ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَۚ ۞- سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 16
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ الۡكِتٰبَ وَالۡحُكۡمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقۡنٰهُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلۡنٰهُمۡ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَۚ ۞
ترجمہ:
اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکومت اور نبوت دی اور ان کو پاک چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے ان کو (اس زمانہ کے) تمام جہان والوں پر فضیلت دی
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکومت اور نبوت دی اور ان کو پاک چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے ان کو (اس زمانہ کے) تمام جہان والوں پر فضیلت دی اور ہم نے ان کو اس دین کے متعلق واضح دلائل عطا فرمائے، اس کے باوجود انہوں نے (اس دین میں) اپنی سرکشی کی بنا پر اسی وقت اختلاف کیا جب ان کے پاس (اس کا) علم آچکا تھا، بیشک آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے (الجاشیہ :16-17)
بنو اسرائیل کو دی گئی نعمتیں
اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ بنو اسرائیل کا طریقہ اپنے پیش رو کفار کے طریقہ کے موافق تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کو طرح طرح کی کثیر نعمتیں دیں، اس کے باوجود وہ سرکشی اور عناد سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے رہے۔
نعمتیں دو قسم کی ہیں : دینی نعمتیں اور دنیاوی نعمتیں اور دینی نعمتیں دنیاوی نعمتوں سے افضل ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دینی نعمتوں سے ابتداء کی ہے، بنو اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے جو دینی نعمتیں عطا کی تھیں وہ یہ ہیں : کتاب، حکومت اور نبوت، کتاب سے مراد ہے تورات اور حکم کی کئی تفسیریں کی گئی ہیں : (١) اس سے مراد علم اور حکمت ہے (٢) اس سے مراد مقدمات کے فیصلوں کی صلاحیت ہے (٣) اللہ تعالیٰ کے احکام کا علم، یعنی فقہ کا علم اور نبوت سے مراد ہے : بنو اسرائیل میں انبیاء (علیہم السلام) کو مبعوث اور دنیاوی نعمتوں کے متعلق فرمایا : ان کو پاک چیزوں سے رزق دیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کی بہت وسیع چیزیں عطا فرمائی تھیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم فرعون کے اموال کا اور ان کے مکانوں کا وارث بنادیا، پھر میدان تیہ میں ان پر من اور سلویٰ نازل فرمایا اور دینی اور دنیاوی نعمتیں عطا کرنے کے علاوہ ان کو ان کے زمانہ کے تمام لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ اپنے وقت میں ان کا مرتبہ اور درجہ اس وقت کی تمام اقوام سے افضل اور اعلیٰ تھا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 16