أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلِلّٰهِ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَيَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَةُ يَوۡمَئِذٍ يَّخۡسَرُ الۡمُبۡطِلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمینوں کی حکومت ہے اور جس روز قیامت قائم ہوگی اس دن باطل پر سخت خسارے میں ہوں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمینوں کی حکومت ہے اور جس روز قیامت قائم ہوگی اس دن باطل پر سخت خسارے میں ہوں گے اور آپ دیکھیں گے کہ ہر جماعت (اس دن) گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہوگی، ہر جماعت کو اس کے صحیفہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا، (ان سے کہا جائے گا :) آج تمہیں ان کاموں کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے یہ ہمارا لکھا ہوا ہے جو تمہارے متعلق حق بیان کررہا ہے، تم جو کچھ بھی کرتے تھے ہم (اس کو) لکھتے رہتے تھے (الجاثیہ :27-29)

کفار کا خسارہ

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ جب وہ پہلی بار زندہ کرنے پر قادر ہے تو دوسری بار بھی زندہ کرنے پر قادر ہے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حشر ونشر قائم کرنے پر اس سے بھی عام دلیل کا ذکر فرمایا اور وہ یہ ہے کہ تمام آسمانوں اور زمینوں پر اس کی حکومت ہے، وہ ان سب چیزوں کو بنانے پر بھی قادر ہے او فنا کرنے پر بھی قادر ہے اور پھر دوبارہ بنانے پر بھی قادر ہے کیونکہ جب اس کی ان سب چیزوں پر حکومت ہے تو وہ ان پر ہر طرح کا تصرف کرنے پر قادر ہے۔

نیز اس آیت میں فرمایا ہے کہ اس دن باطل پر سخت خسارے میں ہوں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی تجارت میں فائدہ تب ہوتا ہے جب انسان کی اصل پونجی اور اصل زر بھی قائم رہے اور اس کے علاوہ اس کو مزید مال حاصل ہوجائے، انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے حیات، صحت اور قوت بدن اور عقل عطا کی، ان سے کام لے کر وہ جنت اور اخروی نعمتوں کو حاصل کرلیں تو ان کو اس تجارت میں فائدہ ہے اور اگر ان کی صحت اور قوت سے بدن بھی زائل ہوجائے اور آخرت میں ان کو عذاب دیا جائے تو یہ ان کی تجارت میں خسارہ ہے، کفار نے اپنی حیات، صحت اور قوت کو دنیا میں خرچ کرکے آخرت کا عذاب مول لے لیا تو یہ ان کی تجارت میں صراحتاً خسارہ ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 27