یا اللہ اس ملک میں کسی کو بیٹی نہ دے

اور شکر ہے مجھے بیٹی نہیں دی ،اقرار الحسن

یہ بندہ اے آر وائی سے چھوٹے چھوثے پروگراموں سے سرعام سے

مشہور ہوا

یہ کراچی کی سفید رنگ والی فیمل سے ہے ایرانی نژاد لگتا ہے

اے آر وائی سے ابتدائی وابستگي کے دوران اس نے شادی کی اور

ایک خوبصورت پڑھی لکھی لڑکی اسکی بیوی بنی

پھر اس لڑکی اے آر وائی پر خبریں پڑھنے کا موقع ملا

اس سے پہلے عامر لیاقت کی بیوی نے دور الطاف کالیا میں اے آر وائی

سے ایک پروگرام کیا ،چھوٹی سی نیکی ،وہ الطاف کو پسند آیا ،اس عورت

کو لندن بلایا ،اور پروگرام دیکھا ،عام لیاقت ناراض ہوا اور ایم کیو ایم

سے میڈیا کی طرف آ گيا ،اور ایم کیو ایم چھوڑ دی ،لیکن چھوٹی سی نیکی

لندن آتی جاتی رہی کیونکہ جان سے مارنے کی دھمکی تھی بچوں کو

اور پھر عامر لیاقت اپنی بیوی سے دور رہنے لگا اور پھر ایک اداکارہ سے

شادی کر لی

اقرار الحسن کی پہلی بیوی قرۃ العین حسن اے آر وائی کا حصہ بنی

تو نیوز پروڈیوسر کے ساتھ تعلقات بنا بیٹھی ،اس آواد خیال سوسائٹی میں

ایک دوسرے مرد کے ساتھ ڈیٹ پر جانا ،ہوٹلوں میں جانا اور دوبئی جانا

معیوب نہیں سمجھا جاتا ،لہذہ قرۃ العین حسن نیوز پروڈیسر کے ساتھ

اکیلی دوبئی وغیرہ جاتی رہی ،اور اقرار الحسن بھی مختلف عورتوں

کے ساتھ گھومتا رہا

یہاں ایک نقطہ ہے کہ کیوں یہ میڈیا والے اسکو معیوب نہیں سمجھتے

بلکہ مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں ،لیکن ایک پاکستانی بنیادی کلچر خلش

ضرور پیدا کرتا ہے کہ دوسرے کی بہن ،بیٹی بیوی میرے ساتھ رہے

لیکن میری پاک دامن رہے ،لہذہ قرۃ العین سے اقرار کی دوریاں شروع ہوئی

اور ایک گھر میں علیحدہ رہنے لگے بچے اور بدنامی سے بچنے کیلئے

قرۃ العین نے اے آر وائی چھوڑ کر گھر پر بیٹھ گئی اور اقرار الحسن نے

دوسری شادی کر لی

پھر اپنے پروگرام کیلئے خوبصورت لڑکیاں رکھیں جو بطور چارا ،جعلی عاملوں

اور عطائي ڈاکٹروں اور سوسائٹی کے ان لوگوں کو پیش کیا جو عورت کی

حوس رکھتے تھے

اور پیش کی جانے والی لڑکیوں کے ساتھ عامل پورا پروگرام کرتے اور یہ ریکارڈ کرتا حالانکہ اپنی دو بیویاں اس کام کیلئے استعمال نہیں کیں

سرعام کے اسی فیصد پروگرام لڑکی بھیج کر کسی کی بیٹی بھیج کر

ریکارڈ ہوتے ہیں ،اقرار الحسن کو بیٹی نہیں لیکن بہنیں خوبصورت ہیں

انکو عاملوں کو پیش نہیں کیا

تمام پیش کی جانے والی لڑکیاں ٹیم سرعام کی تنخواہ دار ہیں اور

چارا بننے کے پیسے لیتی ہیں ،جو پروگرام دکھایا جاتا ہے وہ صرف

اصل کنٹینٹ کا بیس سے تیس فیصد ہوتا ہے کیونکہ کسی لڑکی

کے صرف کندھے پر ہاتھ رکھنے سے مقدمہ درج نہیں ہو سکتا

کراچی ،لاہور ،اسلام آباد ،فیصل آباد ،پشاور ،کوئٹہ ،سکھر ،نواب شاہ

ملتان اور بے شمار شہروں میں مشہور لیگل براتھل یعنی چکلے موجود

ہیں ،وہاں کاروبار ہی یہی ہوتا ہے ،اقرار الحسن اس پر پروگرام نہیں

کر سکتا کیونکہ اس گرفتار لڑکی کے پاس ایک سرٹیفکیٹ ہے کہ اسکا

یا مذہب ہے اور اسے اس عارضی کنٹریکٹ کی اجازت دیتا ہے

لہذہ نہ شہرت مل سکتی ہے نہ پیسہ ،

اقرار الحسن تمہاری بیٹی نہیں تو ااکیا ہوا دو بیویاں ہیں طلاق دے

کیونکہ وہ محفوظ نہیں ہیں ،تیری اپنی حالت دوبئی کی ویڈیو

میں موجود تھی ،جسکی تون وضاحتیں دی تھیں

بیٹی اللہ کی نعمت ہے ،ہاں دعا کر ،کسی کی بیٹی کو ٹک ٹاکر

نہ بنا ،طوائف نہ بنا ،جسم بیچنے والی نہ بنا

ملک کی 51 فیصد آبادی عورتوں پر مشتمل ہے اور ایک واقعہ ہے

اپنے چینل کی ریٹنگ نہیں عملی کام کر ،اور ٹک ٹاکرز کو اصول سکھاؤ

کہ کونسا کام کن حدود میں کرنا ہے

اسی لاہور میں آج سے 35 سال پہلے شوٹنگ سے پانچ اوباش لڑکے اداکارہ

صائمہ کو اٹھا کر لے گئے تھے اور پانچ گھنٹے بعد چھوڑ دیا تھا ،شبنم کے ساتھ

واقعہ ادھر ہی ہوا تھا ،روزینہ اوکاڑہ سے ننگی بھاگي تھی

ٹی وی پروگرام سٹوڈیو اور فلمیں آج بھی پبلک میں نہیں بنتیں ،

جب بھی ایک ریٹڈ فلم پبلک میں بنے گي یہی ہوگآ

لاہور کے سٹیج ڈرامے دیکھ عریاں ڈانس ہوتا ہے ،لیکن دیکھنے والے پیسے

دیتے ہیں

اقرار الحسن اور شامی کا مطالبہ عزت نہیں ،معاوضہ دو کا ہے

اور پارک یہ پبلک مقام پر نہیں آرام سے بیڈ روم میں سکون سے

انکی بہنوں کو پیسے دیکر کھلا پلا کر رکھو

برائي کی تعریف قوم سیکھ لے ،پھر تنقید کرے

جسم بیچنے کو پروموٹ کرنے والے اور اسکی حمایت کرنے والے

کسی نہ کسی طرح اس گندگي سے فیض یاب ضرور ہیں

اور اسی انڈسٹری میں اچھے لوگ بھی ہیں اور عورتیں بھی

لیکن جو عورت گھر سے اکیلی نکلی وہ محتاج ہے رحم و کرم

کی ،اب اسے انسان ملتا ہے یا جانور حالات پر ہے

بیٹیاں بڑی عزت والی ہیں ،بیٹی شرمندگي نہیں ،ٹک ٹاکر شرمندگی

ہے اور بیٹی اور ٹک ٹاکر میں زمین آسمان کا فرق ہے

مجھے افسوس ہے میں پہلی فلم میں انڈین کو کچھ دکھا نہ سکی

سینسر بورڈ کی وجہ سے ،یہ الفاظ سنی لیون کے ہیں

یعنی وہ بیتاب ہے ،ایسے بے تاب جسموں کو لگام دو

صابر حسین