أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعۡمَالَهُمۡ ۞

ترجمہ:

جن کافروں نے لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکا اللہ نے ان کے اعمال کو ضائع کردیا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جن کافروں نے لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکا اللہ نے ان کے اعمال کو ضائع کردیا اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے اور اس کتاب پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی طرف سے سراسر حق ہے، اللہ نے ان کے گناہوں کو مٹا دیا اور ان کے حال کی اصلاح کردی (محمد : ٢۔ ١)

اللہ کی راہ سے روکنے والے کفار کے مصادیق

حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا : ان کافروں سے مراد اہل مکہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کیا اور انہوں نے خود اپنے آپ کو بھی دین اسلام میں داخل ہونے سے روکا اور دوسرے ان لوگوں کو بھی دین اسلام میں داخل ہونے سے روکا اور شدت سے منع کیا جو دین اسلام میں داخل ہونا چاہتے تھے اور ضحاک نے کہا : اس سے مراد وہ کفار ہیں جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کو عمرہ کے قصد سے بیت اللہ میں داخل ہونے سے حدیبیہ کے مقام پر روک لیا تھا اور آپ کو اور آپ کے اصحاب کو حدود حرم میں داخل ہونے نہیں دیا، یہ چھ ہجری کا واقعہ ہے اور بعد میں ایک صلح نامہ کے ذریعہ یہ طے پایا تھا کہ اس سال تو آپ اور آپ کے اصحاب عمرہ کیے بغیر واپس چلے جائیں اور اگلے سال اس عمرہ کی قضاء کرلیں۔

نیز اس آیت میں فرمایا : اللہ نے ان کے اعمال کو ضائع کردیا، اس کی حسب ذیل تفسیریں کی گئیں ہیں :

(١) کفار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نقصان پہنچانے اور آپ کو قتل کرنے کی جو سازشیں کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی سازشوں کو ناکام کردیا اور ان کی سازشوں کو خود ان کے اوپر الٹ دیا، یہ تمام سازشی کفار غزوہ بدر میں مارے گئے اور قید کئے گئے۔

(٢) کفار اپنی دانست میں جو نیک کام کرتے تھے، بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے، غلام آزاد کرتے تھے، پڑوسیوں سے حسن سلوک کرتے تھے، مہمان نوازی کرتے تھے اور ایسی دوسری سماجی خدمت کرتے تھے لیکن چونکہ وہ اللہ سبحانہ، کی توحید پر ایمان نہیں لائے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ان تمام مزعومہ نیکیوں کو باطل کردیا اور قیامت میں ان کو ان نیکیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

(٣) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس سے مراد وہ بارہ کفار ہیں جنہوں نے بدر کے لشکر کفار کی خوراک کا ذمہ لیا تھا وہ یہ تھے : ابو جہل، الحارث بن ہشام، شیبہ، (ربیعہ کے دو بیٹے) ، ابی اور امیہ (خلف کے دو بیٹے) ، منبہ، نبیہ ‘ (حجاج کے دو بیٹے) ، ابو البخری بن ہشام، زمعۃ بن الاسود، حکیم بن حزما، الحارث بن عامر بن نوفل۔ ان کو اس کھانا کھلانے کا کوئی اجر نہیں ملے گا۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٩١)

(٤) ان کے کفر پر اصرار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان سے ہدایت اور ایمان لانے کی توفیق کو سلب کرلیا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 1