أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ حَقَّ عَلَيۡهِمُ الۡقَوۡلُ فِىۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ‌ؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا خٰسِرِيۡنَ ۞

ترجمہ:

یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی حجت پوری ہوچکی ہے، (یہ) جنات اور انسانوں کے ان گروہوں میں سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں یہ لوگ بڑا نقصان اٹھانے والوں میں سے تھے

تفسیر:

الاحقاف : ١٨ میں فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی حجت پوری ہوچکی ہے، یہ جنات اور انسانوں کے ان گروہوں میں سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، یہ لوگ بڑا نقصان اٹھانے والوں میں سے تھے

اس قول کی ترجیح کہ یہ آیت کافر کے متعلق نازل ہوئی

اللہ تعالیٰ نے الاحقاف : ١٥ میں اس بیٹے کا ذکر فرمایا تھا جو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا تھا اور اس آیت میں اس بیٹے کا ذکر فرمایا ہے جو انتہائی سرکش اور ماں باپ کا اس قدر نافرمان تھا کہ جب اس کے ماں باپ نے اس کو دین حق کی دعوت دی اور قیامت اور حشر و نشر کو تسلیم کرنے کے لئے کہا تو اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور انتہائی رکیک شبہات کو قیامت اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کے انکار پر پیش کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے رد میں فرمایا : یہ جنات اور انسانوں کے ان گروہوں میں سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، یہ لوگ بڑا نقصان اٹھانے والوں میں سے تھے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر (رض) ایمان لائے اور انہوں نے اسلام میں بہت نیک کام کئے، لہٰذا یہ آیت جو ایک کافر اور منکر حشر کے متعلق نازل ہوئی ہے ان کو ان پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔

حضرت عبد الرحمان بن ابی بکر کی سوانح

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ حضرت عبد الرحمان بن ابوبکر (رض) کے متعلق لکھتے ہیں :

زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عبدالکعبۃ تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نام بدل کر عبدالرحمان رکھ دیا، انہوں نے اسلام لانے کو مؤخر کیا اور صلح حدیبیہ کے بعد اسلام لائے اور اسلام میں بہت نیک کام کئے۔ ابوالفرج نے ” اغانی “ میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ ہجرت نہیں کی تھی کیونکہ یہ اس وقت کم عمر تھے اور فتح مکہ سے پہلے قریش کے چند جوانوں کے ساتھ ہجرت کی ان میں حضرت معاویہ بھی تھے اور ان سب نے اسلام قبول کرلیا۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔ جنگ بدر میں یہ کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑے تھے، یہ حضرت ابوبکر (رض) کے سب سے بڑے بیٹے تھے، انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعدد احادیث روایت کی ہیں۔

امام ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ یہ بہت بہادر تھے اور بہت ماہر تیر انداز تھے، جنگ یمامہ میں شریک ہوئے اور سات بڑے کافروں کو قتل کیا، جنگ جمل میں یہ حضرت عائشہ (رض) کے ساتھ تھے اور ان کے بھائی محمد بن ابی بکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ تھے۔ حضرت معاویہ نے یزید کی بیعت لینے کے متعلق ان سے مشورہ کیا اور کہا : یہ حضرت ابوبکر اور عمر کی سنت ہے، حضرت عبدالرحمان نے کہا : نہیں یہ ہرقل اور قیصر کی سنت ہے۔ جب ایک قیصر مرجاتا تو دوسرا قیصر اس کی جگہ تخت نشین ہوتا، اللہ کی قسم ! ہم ایسا نہیں کریں گے۔

مروان نے ان کے متعلق کہا تھا : یہ وہی ہے جس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی : ” وََالَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْہِ اُفٍّ لَّکُمَآ “ (الاحقاف : ١٧) تو حضرت عائشہ نے پردے کی اوٹ سے اس کا سخت انکار کیا اور کہا : اگر میں چاہوں میں نام لے کر بتاسکتی ہوں کہ یہ آیت کس کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ اس کے بعد حضرت معاویہ (رض) نے حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر (رض) کی طرف ایک لاکھ (دینار یا درہم) بھیجے مگر حضرت عبد الرحمن نے ان کو واپس کردیا اور کہا : میں اپنے دین کو دنیا کے بدلے میں فروخت نہیں کروں گا۔

پھر حضرت عبدالرحمان مکہ چلے گئے اور یزید کی بیعت مکمل ہونے سے پہلے ان کی وفات ہوگئی، مکہ سے دس میل دور ایک مقام پر ان کی وفات ہوگئی، یہ سوئے ہوئے تھے اور نیند میں ہی ان کو موت آگئی، پھر ان کو مکہ لایا گیا اور وہاں ان کو دفن کیا گیا جب حضرت عائشہ (رض) کو یہ خبر پہچی تو جب وہ حج کرنے کے لئے گئیں تو ان کی قبر پر کھڑے ہو کر روئیں، پھر کہا : اگر میں تمہاری وفات کے وقت حاضر ہوتی تو میں تم کو وہیں دفن کردیتی جہاں تم کو موت آئی تھی اور تم پر نہ روتی۔ امام ابن سعد اور متعدد محدثین نے لکھا ہے کہ حضرت عبد الرحمان ٥٣ ھ میں فوت ہوئے تھے۔ یحییٰ بن بکیر نے کہا : ٥٤ ھ میں فوت ہوئے۔ اور بھی کئی اقوال ہیں، ابو زرعہ دمشقی نے کہا : جس سال حضرت معاویہ یزید کی بیعت لینے کے لئے مدینہ میں آئے تھے اس سال فوت ہوئے تھے اور حضرت عائشہ اس کے ایک سال بعد ٥٩ ھ میں فوت ہوئیں تھیں۔ امام ابن حبان نے کہا : حضرت عبد الرحمان ٥٨ ھ میں فوت ہوئے۔ (الاصابۃ ج ٤ ص ٢٧٦، رقم الحدیث : ٥١٦٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام ابن الاثیر علی بن محمد الجزری المتوفی ٦٣٠ ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔

(اسد الغابہ ج ٣ ص ٤٦٢، رقم الحدیث : ٣٣٤٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 18