أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الَّذِيۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ‌ۚ ۞

ترجمہ:

بیشک جن لوگوں نے کہا : ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اسی پر جمے رہے، سو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غم گیں ہوں گے

الاحقاف : ١٤۔ ١٣ میں فرمایا : بیشک جن لوگوں نے کہا : میرا رب اللہ ہے، پھر وہ اسی پر جمے رہے، سو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غم گین ہوں گے یہی لوگ جنتی ہیں اس میں ہمیشہ رہنے والے (یہ) ان کے نیک کاموں کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے

اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور جلال کا خوف

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے توحید اور رسالت کے دلائل کی تقریر فرمائی اور منکرین کے شبہات کے جوابات دیئے، اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ توحید اور رسالت کے ماننے والوں کا حال بیان فرما رہا ہے اور ان آیات میں یہ بیان فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اور نیک اعمال کرتا ہے، حشر کے بعد نہ اس کو کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غم گین ہوگا اور قیامت کے دن کی ہول ناکیوں سے وہ محفوظ رہے گا اور تحقیق یہ ہے کہ عذاب کا خوف تو ان کو نہیں ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کی ہیبت کا خوف کسی بندہ سے زائل نہیں ہوگا، کیونکہ فرشتے معصوم ہیں، ان کے درجات بلند ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے بہت مقرب ہیں اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں :

یَخَافُوْنَ رَبَّہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل : ٥٠ )

فرشتے اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں جو ان کے اوپر ہے اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہی لوگ جنتی ہیں اس میں ہمیشہ رہنے والے (یہ) ان کے نیک کاموں کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے

فساق مؤمنین کی مغفرت پر دلائل

اس مقام پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت میں حصر ہے کہ جن لوگوں نے کہا : ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر جمے رہے تو وہی لوگ جنتی ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد گناہ کبیرہ کر لئے اور ان پر توبہ نہیں کی وہ جنتی نہیں ہوں گے، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کسی کا کوئی نیک عمل ضائع نہیں فرمائے گا، قرآن مجید میں ہے :

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ (الزلزال : ٨۔ ٧)

پس جس شخص نے ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی نیکی کی تو وہ اس کا صلہ پائے گا اور جس شخص نے ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی برائی کی تو وہ اس کی سزا بھگتے گا

تو اگر ایمان لانے کے بعد کسی نے کبیرہ گناہ کئے اور ان پر توبہ کئے بغیر مرگیا تو وہ اپنے گناہوں کی سزا پا کر بہرحال اپنے ایمان لانے کی جزا پانے کے لئے جنت میں جائے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس کی توبہ نہ کرتے کے باوجود محض اپنے فضل سے معاف فرما دے، کیونکہ قرآن مجید میں ہے :

اِنَّ اللہ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ج (النساء : ٤٨ )

بے شک اللہ اس بات کو نہیں معاف کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور جو گناہ اس سے کم ہوگا، اس کو وہ جس کے لئے چاہے گا معاف فرما دے گا۔

اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے اس کی مغفرت ہوجائے کیونکہ حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” شفاعتی لاھل الکبائر من امتی “ میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والے کے لئے ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٣٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣١٠، مسند احمد ج ٣ ص ٢١٣)

اسی طرح دیگر انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کی شفاعت سے بھی اس کی مغفرت متوقع ہے۔

مغفرت کا سبب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے

اس پر دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اس آیت میں فرمایا ہے کہ یہ ان کے نیک کاموں کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو دوزخ سے نجات اور جنت کے حصول کا سبب اس کے نیک اعمال ہیں اور یہ کہنا غلط ہے کہ اس کو اجر وثواب اللہ کے فضل کی وجہ سے ملتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ دوزخ سے نجات اور جنت کے حصول کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور ظاہر سبب اس کے نیک اعمال ہیں اور یہاں ظاہری سبب کا ذکر ہے، اس سے حقیقی سبب کی نفی نہیں ہوتی، حقیقی سبب کا ذکر ان آیات میں ہے :

لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَۃَ الْاُوْلٰیج وَوَقٰھُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکَ ط ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (الدخان : ٥٧۔ ٥٦ )

وہ جنت میں کوئی موت نہیں چکھیں گے سوا (دنیا کی) پہلی موت کے اور اللہ نے ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا لیا یہ صرف آپ کے رب کا فضل ہے، یہی بڑی کامیابی ہے

ان آیات میں یہ تصریح ہے کو دوزخ سے نجات اور جنت کے حصول کا سبب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور رہے نیک اعمال تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی نصیب ہوتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 13