بکروں کی قربانی کی
باب فی الاضحیۃ
قربانی کاباب ۱؎
الفصل الاول
پہلی فصل
۱؎ اضحیہ ضحوٌ سے بنا،بمعنی دن چڑھنا اسی لیے نمازچاشت کو ضحیٰ کہاجاتاہے،چونکہ قربانی بقرعید کے دن شہروں میں قریبًا دوپہر ہی کو ہوتی ہے اس لیے اسے اضحیہ کہتے ہیں۔اس کی جمع اضاحی بھی ہے اور ضحایابھی۔قربانی صرف بقرعید کے دنوں میں بہ نیتِ عبادت جانور ذبح کرنے کا نام ہے حج کے ذبیحے خواہ ہدی ہویا قران و تمتع کاخون یا حج کے جرموں کاکفارہ ان میں سے کوئی قربانی نہیں کیونکہ حاجی مسافر ہوتے ہیں اورمسافر پرقربانی نہیں اسی لیے ان ذبیحوں کے نام ہی علیحدہ ہیں:دم قران،دم تمتع،دم جنایت،ہدی وغیرہ،شریعت میں انہیں اضحیہ کہیں نہیں کہا گیا،نیز وہ تمام جانور صرف حرم شریف میں ہی ذبح ہوسکتے ہیں،اور قربانی ہر جگہ حنفیوں کے نزدیک ہر مسلمان آزاد،مالدار مقیم پر قربانی واجب ہے،بعض اماموں کے ہاں سنت مؤکدہ ہے،امام صاحب کے ہاں غنی پر واجب ہے،فقیر پر سنت،مگر مذہب حنفی نہایت قوی ہے کیونکہ رب تعالٰی نے فرمایا:”فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ”یعنی آپ نماز پڑھیں اورقربانی کریں۔اَنْحَرْ صیغۂ امر ہے جو وجوب کے لیے آتاہے،نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ہمیشہ قربانی کی،نیز قربانی نہ کرنے والوں پرسخت ناراضی کا اظہار فرمایا۔لہذا حق یہ ہے کہ قربانی واجب ہے،اس زمانہ کے بعض بے دین ہندونواز مسلمان ہزارحیلہ بہانوں سے پاکستان میں قربانی روکنا چاہتے ہیں کبھی کہتے ہیں قربانی صرف مکہ میں ہے،حالانکہ رب نے فرمایا:”فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ”۔نماز مکہ سے خاص نہیں تو قربانی مکہ معظمہ سے خاص کیوں ہوگی،کبھی کہتے ہیں کہ اس میں قوم کا پیسہ بہت برباد ہوتا ہےیہ رقم کالجوں،اسکولوں پرخرچ کی جائے،یعنی سینما،شادی بیاہ کی حرام رسوم،پان سگریٹ کےشوق قوم کو برباد نہیں کرتے قربانی کرتی ہے۔بہت ممکن ہے کہ یہ بے دین آئندہ اسی بہانہ سے حج بھی بند کرنے لگیں گے۔اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی حکومت گائے کی قربانی بندکرچکی ہے۔اب اس کا منشاء یہ ہے کہ اصل قربانی جو شعار اسلامی ہے ختم کردیا جائے،پھرنمازواذان بند کرنے کی باری آئے گی مگر اپنی بدنامی کے خوف سے اس نے یہ مسئلہ اپنے زرخرید پٹھوؤں کے ذریعہ پاکستان میں اٹھوایا تاکہ اگر یہاں بند ہوجائے تو وہاں آسانی سے بند ہوسکے مگر ان شاءاﷲ تعالٰی دین مصطفوی کا چراغ ہمیشہ روشن رہے گا۔دیکھو مروان کی کوشش سے خطبہ عید نماز سے پہلے نہ ہوسکا۔
حدیث نمبر 679
روایت ہےحضرت انس سے فرماتےہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوچتکبرے سینگ والے بکروں کی قربانی کی ۱؎کہ انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا بسم اﷲ و تکبیرکہی فرمایا کہ میں نے آپ کو ان بکروں کی کروٹوں پر اپنا قدم رکھے دیکھا۲؎ آپ فرماتے تھے بسم اﷲ واﷲ اکبر۔(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنے غریب امتیوں کی طرف سےجو قربانی پرقادر نہ ہوں جیساکہ آگے آرہا ہے۔ایک قربانی سارے غریبوں کی طرف سے کافی ہونا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سجدہ ان شاءاﷲ تعالٰی ہم جیسے لاکھوں گنہگاروں کا بیڑا پار لگائے گا۔قربانی اگرچہ ایک ہے مگر کس کی ہے جو ساری مخلوق میں یکتا ہے۔
۲؎ اس طرح کہ جانورکو قبلہ رولٹاکر اپنا داہنا پاؤں اس کے داہنے کندھے پر رکھا،بائیں ہاتھ سے اس کا سرپکڑا اور داہنے ہاتھ سے چھری چلائی۔خیال رہے کہ ذبح پر بِسْم اﷲ کہنا فرض ہے اور وَاﷲُ اَکْبَرْ کہنا مستحب اور اس وقت درود شریف پڑھنا ہمارے ہاں مکروہ ہے،امام شافعی کے ہاں سنت۔(مرقاۃ)بہتر یہ ہے کہ جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرے اور اگر ذبح کرنا نہ جانتاہوتو ذبح اور سے کرائے مگر سامنے موجود ہونابہتر ہے۔