ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوۡلَى الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَاَنَّ الۡكٰفِرِيۡنَ لَا مَوۡلٰى لَهُمۡ۞- سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 11
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوۡلَى الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَاَنَّ الۡكٰفِرِيۡنَ لَا مَوۡلٰى لَهُمۡ۞
ترجمہ:
اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے اور کافروں کا کوئی مددگار نہیں ہے
محمد : ا ا میں فرمایا : اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے اور کافروں کا کوئی مددگار نہیں ہے
قتادہ نے کہا : یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کی کسی گھاٹی میں تھے، اس وقت کفار نے چیخ کر کہا : یہ دن بدر کے دن کا بدلہ ہے، ہمارا عزیٰ ہے اور تمہارا عزیٰ نہیں ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم کہو : اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ہے، یعنی اللہ کی طرف سے ان کے لئے کوئی مدد نہیں آئے گی، حدیث میں ہے :
حضرت البراء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس دن (غزوہ احد میں) ہمارا مشرکین سے مقابلہ ہوا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرا ندازوں کا ایک لشکر بٹھا دیا تھا اور ان پر حضرت عبد اللہ بن جبیر کو امیر مقرر کردیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم اس جگہ سے نہ ہٹنا، خواہ تم یہ دیکھو کہ ہم ان پر غالب ہوگئے ہیں تب بھی تم یہاں سے نہ ہلنا اور خواہم تم یہ دیکھو کہ وہ (مشرکین) ہم پر غالب ہوگئے ہیں، تب بھی تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، اور ہماری مدد کے لئے نہ آنا، جب ہمارا مقابلہ ہوا تو کفار شکست کھا گئے، حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑوں کو گھاٹیوں میں دوڑ رہی تھیں اور انہوں نے اپنی پنڈلیوں سے اپنا کپڑا اٹھایا ہوا تھا اور ان کی پازیب ظاہر ہو رہی تھی، تو جن تیر اندازوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑا کیا تھا وہ کہنے لگے : مال غنیمت ہے، مال غنیمت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن جبیر نے کہا : تم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاکیداً نصیحت فرمائی تھی کہ تمہیں یہاں سے ہٹنا نہیں، وہ نہیں مانے اور جیسے ہی انہوں نے انکار کیا، ان کے چہرے پھرگئے اور ستر مسلمان قتل کردئیے گئے اور ابو سفیان نے بلند آواز سے کہا : کیا قوم میں (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس کو جواب نہ دینا، پھر کہا : کیا قوم میں ابن ابو قحافہ (حضرت ابوبکر) ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس کو جواب نہ دینا، پھر کہا : کیا قوم میں خطاب کا بیٹا (حضرت عمر) ہے ؟ پھر کہنے لگا : یہ سب قتل کردیئے گئے، اگر یہ زندہ ہوتے تو ضرور جواب دیتے، پھر حضرت عمر ضبط نہ کرسکے، انہوں نے کہا : اے اللہ کے دشمن ! تو جھوٹ بولتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو زندہ رکھا ہے جو تجھے غم گین کریں گے، ابو سفیان نے کہا : ہبل بلند ہو ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو جواب دو ، مسلمانوں نے پوچھا : کیا کہیں ؟ فرمایا : تم کہو : اللہ بلند اور برتر ہے، ابو سفیان ہے کہا : ہمارا عزیٰ ہے اور تمہارا عزیٰ نہیں ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو جواب دو ، مسلمانوں نے پوچھا : ہم کیا کہیں ؟ فرمایا : تم کہو : اللہ ہمارا مولا (مددگار) ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ (مددگار) نہیں ہے۔ ابو سفیان نے کہا : آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور جنگ ایک ڈول ہے، عنقریب تم ایک مثلہ دیکھو گے نہ میں نے اس کا حکم دیا تھا اور نہ مجھے اس سے رنج ہوا ہے (مثلہ کا معنی ہے : جس کو قتل کرکے اس کے اعضاء کاٹ دئے جائیں) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٠٤٣، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٦٦٢، مسند احمد رقم الحدیث : ١٨٧٩٤، عالم الکتب)
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جنگوں میں شکست ہونا اگر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی علامت ہے تو اگر جنگ بدر میں کفار کو شکست ہوئی تو جنگ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو جو عذاب کفار پر آیا تھا وہ عذاب مسلمانوں پر بھی آیا، اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس وجہ سے شکست ہوئی تو جو عذاب کفار پر آیا تھا وہ عذاب مسلمانوں پر بھی آیا، اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس وجہ سے شکست ہوئی کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حکم عدولی کی، آپ نے فرمایا تھا کہ فتح ہو یا شکست تم اس جگہ سے نہ ہٹنا، وہ مال غنیمت کو حاصل کرنے کے شوق میں وہاں سے ہٹ گئے تو انہوں نے جیتی ہوئی بازی ہار دی اور آج بھی مسلمانوں کی زبوں حالی اور کمزوری کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور آپ کی اتباع سے منہ موڑ لیا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت اور حمایت نے ان سے منہ موڑ لیا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کے حصول کا مدار آپ کی اتباع پر ہے اور بدر اور احد کی جنگوں میں ان کی واضح دلیل ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 11