ذٰ لِكَ بِاَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا اتَّبَعُوا الۡبَاطِلَ وَاَنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الۡحَقَّ مِنۡ رَّبِّهِمۡؕ كَذٰلِكَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ اَمۡثَالَهُمۡ ۞- سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 3
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ذٰ لِكَ بِاَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا اتَّبَعُوا الۡبَاطِلَ وَاَنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الۡحَقَّ مِنۡ رَّبِّهِمۡؕ كَذٰلِكَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ اَمۡثَالَهُمۡ ۞
ترجمہ:
اس کی وجہ یہ ہے کہ کافروں نے باطل کی پیروی کی اور ایمان والوں نے اس کی پیروی کی جو ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اسی طرح اللہ لوگوں کو ان کے احوال بیان فرماتا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اس کی وجہ یہ ہے کہ کافروں نے باطل کی پیروی کی اور ایمان والوں نے اس کی پیروی کی جو ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اسی طرح اللہ لوگوں کو ان کے احوال بیان فرماتا ہے سو جب تمہارا کفار سے مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں مارو، حتیٰ کہ جب تم ان کا خون بہا چکوتو ان کو مضبوطی سے گرفتار کرلو (پھر تم کو اختیار ہے) خواہ تم ان پر احسان کرکے ان کو بلا معاوضہ چھوڑ دو یا ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دو حتیٰ کہ جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے، یہی حکم ہے، اور اگر اللہ چاہتا تو (از خود) ان سے انتقام لیتا، (لیکن وہ یہ چاہتا ہے) کہ وہ تم میں سے ایک فریق کو دوسرے فریق کے ذریعہ آزمائے اور جو لوگ اللہ کے راستہ میں قتل کیے جاتے ہیں، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا (محمد : ٤۔ ٣)
محمد : ٣ کا خلاصہ یہ ہے کہ کافروں کو تم راہی پر برقرار رکھنا اور مومنوں کو ہدایت سے نوازنا اس لئے ہے کہ کافروں نے باطل کی اتباع کی اور مؤمنوں نے حق کی اتباع کی، باطل سے مراد شرک ہے اور حق سے مراد توحید، یا باطل سے مراد شیاطین اور کفار کے آبائو اجداد ہیں اور حق سے مراد انبیاء اور رسل ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی مثال بیان کی ہے، اسی طرح اللہ سبحانہ، نیکیوں اور برائیوں اور مؤمنوں اور کافروں کی مثالیں بیان فرماتا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 3