أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالُوۡا يٰقَوۡمَنَاۤ اِنَّا سَمِعۡنَا كِتٰبًا اُنۡزِلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ يَهۡدِىۡۤ اِلَى الۡحَقِّ وَاِلٰى طَرِيۡقٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ ۞

ترجمہ:

انہوں نے کہا : اے ہماری قوم ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے وہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور حق کی طرف ہدایت دیتی ہے اور سیدھے راستہ کی طرف

الاحقاف : ٣٠ میں فرمایا : انہوں نے کہا : اے ہماری قوم ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے وہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور حق کی طرف ہدایت دیتی ہے اور سیدھے راستے کی طرف

جنات کے قول میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر نہ ہونے کی وجوہ

جنات نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن مجید سن کر اپنی قوم کی طرف واپس جاتے ہوئے کہا : اے ہماری قوم ! ہم نے عظیم اور جلیل کتاب سے سنا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے، انہوں نے یہ نہیں کہا : جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے، اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

(١) وہ جنات یہودی تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے تھے اس لئے انہوں نے صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیا۔

(٢) تورات یہود و نصاریٰ دونوں کے نزدیک متفق علیہ ہے، جب کہ یہودی ” انجیل “ کو نہیں مانتے تھے اور عیسائی ” انجیل “ کے علاوہ ” تورات “ کو بھی مانتے تھے۔

(٣) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ” تورات “ کے احکام پر عمل کریں۔

(٤) حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت ہے کہ جنات نے حضرت عیسیٰ علیہ السلم کی رسالت کے متعلق نہیں سنا تھا، اس لئے انہوں نے صرف ” تورات “ کا ذکر کیا، مگر اس پر یہ اشکال ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت بہت مشہور تھی اور ان کی رسالت کا جنات سے مخفی ہونا بہت مستبعد ہے۔ اس لئے علامہ ابو حیان اندلسی نے کہا : حضرت ابن عباس سے اس روایت کی نقل صحیح نہیں ہے۔

اس آیت میں قرآن مجید کے متعلق فرمایا ہے : یہ کتاب حق کی طرف ہدایت دیتی ہے، اس سے مراد اصول اور عقائد ہیں اور فرما ایا : اور سیدھے راستے کی طرف اس سے مراد فروع اور احکام شرعیہ عملیہ ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 30