قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ كَانَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ وَكَفَرۡتُمۡ بِهٖ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنۡۢ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ عَلٰى مِثۡلِهٖ فَاٰمَنَ وَاسۡتَكۡبَرۡتُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ۞- سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 10
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ كَانَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ وَكَفَرۡتُمۡ بِهٖ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنۡۢ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ عَلٰى مِثۡلِهٖ فَاٰمَنَ وَاسۡتَكۡبَرۡتُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ۞
ترجمہ:
آپ کہیے کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہو اور تم اس کا کفر کرچکے ہو (تو پھر تمہارا کیا انجام ہوگا ! ) اور بنی اسرائیل کا ایک شخص اس جیسی کتاب کی گواہی دے چکا ہو اور اس پر ایمان بھی لا چکا ہو، اور تم نے تکبر کیا ہو (تو تمہاری عاقبت کیسی ہوگی ! ) بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ؏
تفسیر:
” شھد شاھد من بنی اسرائیل “ کے مصداق کی تحقیق
اس آیت میں فرمایا ہے : اور بنی اسرائیل کا ایک شخص اس جیسی کتاب کی گواہی دے چکا ہو اور اس پر ایمان بھی لا چکا ہو۔
اس آیت میں بنی اسرائیل کے ایک شخص سے مراد حضرت عبد اللہ بن سلام (رض) ہیں۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن سلام (رض) نے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لے آئے ہیں تو انہوں نے کہا : میں آپ سے تین ایسی چیزوں کے متعلق سوال کروں گا جن کو نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا، (١) قیامت کی پہلی علامت کیا ہے ؟ (٢) اہل جنت کا پہلا طعام کون سا ہوگا ؟ (٣) بچہ اپنے باپ یا ماں کے کیسے مشابہ ہوتا ہے ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب تک جمع کرے گی اور اہل جنت کا پہلا کھانا مچھلی کی کلیجی کا ٹکڑا ہوگا اور جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آجائے تو وہ بچہ کی شبیہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجائے تو وہ بچہ کی شبیہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام نے کہا : ” اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھدانک رسول اللہ “ یا رسول اللہ ! بیشک یہود بہت بہتان تراش قوم ہے، اگر ان کو میرے اسلام کا اس سے پہلے علم ہوگیا کہ آپ ان سے میرے متعلق سوال کریں تو وہ مجھ پر بہتان لگائیں گے، پھر یہود آئے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے سوال کیا کہ تم میں عبد اللہ کیسے ہیں ؟ انہوں نے کہا : وہ ہم میں سب سے بہتر ہیں ان کے والد بھی ہم میں سب سے بہتر ہیں، وہ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں، آپ نے فرمایا : یہ بتائو کہ اگر عبد اللہ بن سلام مسلمان ہوجائیں ؟ انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ ان کو اس سے اپنی پناہ میں رکھے، پھر حضرت عبد اللہ باہر نکلے اور کہا : ” اشھد ان لا الہ اللہ وان محمدا رسول اللہ “ تو یہود نے کہا : وہ ہم میں سب سے برے ہیں، سب سے برے شخص کے بیٹے ہیں اور ان کی برائیاں کیں۔ حضرت عبد اللہ نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے اسی چیز کا خدشہ تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٨٠)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے اس تفسیر پر یہ اعتراض کیا ہے :
شعبی، مسروق اور ایک جماعت نے اس تفسیر کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس آیت میں بنی اسرائیل کے جس شاہد کا ذکر کیا ہے وہ حضرت عبد اللہ بن سلام نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ مدینہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے دو سال پہلے اسلام لائے تھے اور یہ سورت مکی ہے پس مکی آیت کو اس واقعہ پر محمول کرنا کس طرح درست ہوگا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال سے دو سال پہلے پیش آیا تھا ؟ پھر لکھا ہے کہ کلبی نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ ہرچند کہ یہ سورت مکی ہے لیکن اس کی آیت : ١٠ اس عموم سے مستثنیٰ ہے (جیسا کہ مصنف نے بھی اس سورت کے تعارف میں ابن عطیہ سے نقل کیا ہے کہ الاحقاف : ١٠ اور الاحقاف : ١٥ مدنی آیتیں ہیں) ۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ١١، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
میں کہتا ہوں کہ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال سے دو سال پہلے اسلام لائے تھے۔
حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :
حضرت عبد اللہ بن سلام اس وقت اسلام لائے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے، وہ اسی وقت مسلمان ہوگئے تھے اور قیس بن الربیع از عاصم از شعبی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال سے دو سال پہلے اسلام لائے تھے۔ یہ حدیث مرسل ہے اور قیس ضعیف ہے۔ (الاصابہ ج ٤ ص ١٠٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حافظ ابن عبدالبر مالکی متوفی ٤٦٣ ھ، حافظ ابن الاثیر متوفی ٦٣٠ ھ اور حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” شھد شاھد من بنی اسرائیل “ حضرت عبد اللہ بن سلام (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے۔(الاستیعاب ج ٣ ص ٥٤، اسد الغابہ ج ٣ ص ٢٦٥، الاصابہ ج ٤ ص ١٠٤)
حضرت عبد اللہ بن سلام (رض) کی سوانح اور ان کے فضائل
علامہ شمس الدین محمد بن احمد عثمان الذہبی متوفی ٧٥٨ ھ لکھتے ہیں :
حضرت عبد اللہ بن سلام بن الحارث کو جنت کی بشارت دی گئی تھی، یہ بہت بڑے اسرائیلی عالم تھے، انصار کے حلیف تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاص اصحاب میں سے تھے، امام محمد بن سعد نے کہا ہے کہ ان کا نام پہلے الحصین تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نام بدل کر عبد اللہ رکھ دیا۔ (المستدرک ج ٣ ص ٣١٤، تہذیب الکمال ج ١٥ ص ٧٤) شعبی سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال سے دو سال پہلے اسلام لائے تھے۔ یہ قول شاذ اور مردود ہے اور صحیح یہ ہے کہ جس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ پہنچے حضرت عبد اللہ بن سلام اسی وقت اسلام لے آئے تھے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٩٤٨ )
حضرت عبد اللہ بن سلام (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں آئے تو لوگ آپ کے گرد جمع ہوگئے اور میں بھی ان لوگوں میں تھا جب میں نے آپ کے چہرے کو دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے اور میں نے آپ سے جو پہلی بات سنی وہ یہ تھی : اے لوگو ! بہ کثرت سلام کیا کرو اور کھانا کھلایا اور رشتہ داروں سے میل ملاپ رکھا کرو اور جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو رات کو اٹھ کر نماز پڑھا کرو اور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائو۔(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٨٧)
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے صرف حضرت عبد اللہ بن سلام کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ وہ جنتی ہیں اور ان ہی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی : ” وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْم بَنِیْٓ اِسْرَائِ یْلَ عَلٰی مِثْلِہٖ “ (الاحقاف : ١٠)
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس راستہ پر چلنے والا شخص اہل جنت میں سے ہے، تو اسی وقت حضرت ابن سلام آگئے۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ١٤٥٨، دارالفکر، المستدرک ج ٣ ص ٤١٦)
متعدد سندوں کے ساتھ روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک باغ میں ہوں اور باغ کے درمیان میں ایک ستون ہے اور ستون کی بلندی پر ایک دستہ ہے، مجھ سے کہا گیا : اس ستون پر چڑھو، میں نے کہا : میں اس کی طاقت نہیں رکھتا، پھر ایک لڑکا آیا، اس نے میرے کپڑے اوپر کئے پھر میں اس پر چڑھا اور میں نے اس دست کو پکڑ لیا، پھر میں بیدار ہوگیا، میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ خواب بیان کیا، آپ نے فرمایا : اس باغ سے مراد اسلام ہے اور ستون سے مراد اسلام کا ستون ہے اور اس دستہ سے مراد ” العروۃ الوثقی “ (مضبوط راستہ) ہے اور تم تاحیات اسلام کے ساتھ وابستہ رہو گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٠١٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٨٤، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٣٨٤٨ )
یزید بن عمیرہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت معاذ بن جبل (رض) پر موت کا وقت آیا تو یزید ان کے سر کے پاس بیٹھ کر رو رہے تھے، انہوں نے پوچھا : تم کس وجہ سے رو رہے ہو ؟ یزید نے کہا : مجھ سے جو علم جاتا رہا میں اس پر رو رہا ہوں، حضرت معاذ نے کہا : علم جس طرح تھا اسی طرح ہے وہ کہیں نہیں گیا۔ تم چار آدمیوں کے پاس علم کو تلاش کرو، پھر ان چاروں کے نام لئے اور ان میں حضرت عبد اللہ بن سلام بھی تھے جن کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا ہے : وہ دس جنتیوں میں سے دسویں ہیں۔ (سنن الترمذی : ٣٨٠٤، المستدرک ج ٣ ص ٤١٦، تاریخ کبیر للبخاری ج ١ ص ٧٣، الاصابۃ ج ٦ ص ١٠٩)
عبد اللہ بن حنطلۃ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا : حضرت عبد اللہ بن سلام (رض) بازار میں لکڑیوں کا ایک گٹھڑا اٹھا کر جا رہے ہیں، ان سے کہا گیا : کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے مستغنیٰ نہیں کردیا ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں ! لیکن میں تکبر کا قلع قمع کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ١٢، ص ٢٥٢، المستدرک ج ٣ ص ٤١٦)
عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ساتھ یہود کے معبد میں گئے، آپ نے فرمایا : اے یہود ! مجھے بارہ ایسے آدمی دکھائو جو یہ گواہی دیں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں تو تم سے اللہ کا غضب دور ہوجائے گا، وہ خاموش رہے، آپ نے دوبارہ فرمایا، پھر بھی کسی نے جواب نہیں دیا، آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں حشر برپا کرنے والا ہوں، میں سب نبیوں کے بعد آنے والا ہوں اور میں مصطفیٰ ہوں، خواہ تم ایمان لائو، خواہ تکذیب کرو، جب آپ واپس جانے لگے تو ایک شخص نے کہا : آپ ٹھہریں یا محمد ! پھر اس شخص نے یہود سے پوچھا : تمہارے نزدیک میں کیسا شخص ہوں ؟ سب نے کہا : ہم میں تم سے بڑا عالم کوئی نہیں ہے، اس نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے نبی ہیں جن کا ذکر تم ” تورات “ میں پڑھتے ہو، پھر انہوں نے کہا : تم نے جھوٹ بولا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے جھوٹ بولا، ہم تینوں باہر نکل آئے اور یہ آیت نازل ہوگئی : ” اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللہ ِ وَکَفَرْتُمْ بِہٖ وَشَہِدَ شَاہِدٌ …“ (الاحقاف : ١٠) ۔ (المستدرک ج ٤ ص ٤١٥)
حضرت عبد اللہ بن سلام تینتالیس (٤٣ ھ) ہجری میں فوت ہوئے۔(سیر اعلام النبلاء ج ٤ ص ٧٣۔ ٦٥، ملخصاً ، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 10