حدیث نمبر 678

روایت ہے حضرت ابوسعید خدری سے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن تشریف لے جاتے تو نماز سے ابتداء کرتے جب نماز پڑھ چکتے تو لوگوں پرمتوجہ ہوتے لوگ اپنے مقام پر بیٹھے ہوتے اگر سرکار کو لشکر بھیجنے کی ضرورت ہوتی تو لوگوں سے ذکر فرمادیتے یا آپ کو اس کے سوا کوئی اورضرورت ہوتی تو اس کا حکم فرمادیتے ۱؎ اور فرماتے تھے خیرات کرو خیرات کرو خیرات کرو زیادہ خیرات کرنے والی عورتیں ہوتی تھیں ۲؎ پھر آپ واپس ہوتے معاملہ یوں رہا حتی کہ مروان ابن حکم کا زمانہ آیا۳؎ تو میں مروان کی کمر میں ہاتھ ڈالے نکلا حتی کہ ہم عیدگاہ پہنچے تو دیکھا کہ کثیر ابن صلت نے کچی اینٹ و گارے کا منبر بنایا ہے۴؎ اورمروان مجھ سے اپنا ہاتھ کھینچنے لگا شاید مجھے منبر کی طرف کھینچتا تھا اور اسے میں نماز کی طرف کھینچتا تھا جب میں نے اس کی یہ حرکت دیکھی تو میں بولا کہ نماز سے ابتداءکرنا کہاں گیا وہ بولا نہیں اے ابوسعید جوتمہارے علم میں ہے وہ اب چھوڑ دی گئی ۵؎ میں نے کہا ہرگز نہیں اس کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جو چیز میرے علم میں ہے تم اس سے بہتر کوئی چیز نہیں لاسکتے ۶؎(مسلم)

شرح

۱؎ یہ حدیث مع شرح پہلےگزر چکی۔پہلےعرض کیاجاچکا کہ نمازعیدین کے لیے نہ اذان ہے نہ تکبیر اور اس کا خطبہ بعد نماز ہوگا،اورعیدگاہ میں دینی کام کے انتظامات کئے جاسکتے ہیں۔

۲؎ ظاہر یہ ہے کہ تاکید کے لیےتین بارخیرات کا حکم دیتے تھے اور یہ فرمان دوران خطبہ میں ہوتا تھایا ایک بار سامنے والوں سے فرماتے،دوسری بار داہنے والوں سے،تیسری بار بائیں والوں سے یا یہ مطلب ہے کہ اپنی دنیا کے لیے خیرات کرو،اپنے مُردوں کے لیے اور اپنی آخرت کے لیے خیرات کرو یا یہ کہ زکوۃ دو،فطرہ دو،صدقہ نفلی دو،عورتیں زیادہ خیرات اس لیے کرتی تھیں کہ وہ سن چکی تھیں کہ دوزخ میں ہم زیادہ دیکھی گئی ہیں۔

۳؎ یعنی خلفائے راشدین نے بھی خطبہ نمازعید کے بعد ہی رکھا۔خیال رہے کہ مروان ابن حکم ۲ھ؁ میں یا خندق کے سال پیدا ہوا۔حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا لہذا وہ صحابی نہیں،یہ امیر معاویہ کے زمانہ میں مدینہ کا حاکم تھا۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی نے اپنے آخر خلافت میں اور امیر معاویہ نے خطبۂ عید نماز سے پہلے پڑھا مگر یہ غلط ہے جیساکہ اس حدیث سے صراحۃ ًمعلوم ہورہا ہے،نیز حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق و فاروق و عثمان و علی رضی اللہ عنھم کے ساتھ نماز عید پڑھی یہ سب حضرات خطبہ سے پہلے نماز پڑھتے تھے لہذا اس بدعت کا موجد مروان ہی تھا۔

۴؎ یعنی اس سے قبل عیدگاہ میں منبر نہ تھا،مروان نے پہلے تو منبر رسول اﷲ عیدگاہ میں لانا شروع کیا،اس پر اعتراضات ہوئے تو اس نے وہاں ہی منبربنوایا،لہذا یہ حدیث اس روایت کے خلاف نہیں کہ مروان مسجدنبوی سے منبرمنگواتا تھا۔خیال رہے کہ کثیر ابن صلت ابن سعدی کرب کندی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہوئے،ان کا نام قلیل تھاحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر کثیر رکھا۔

۵؎ یعنی میں جانتا ہوں کہ سنت یہی ہے کہ خطبہ نماز سے پیچھے ہولیکن اب مصلحت اورحکمت یہ ہے کہ نمازسےپہلے ہوکیونکہ اب لوگ نماز کے بعدخطبہ کے لیے بیٹھتے نہیں اسی لیے اس نے”تُرِكَ کَمَا تَرَکْتُ”نہ کہا یعنی مجرم اس کا میں نہیں ہوں،یہ جلد بازلوگ ہیں۔

۶؎ یعنی ان معمولی عذروں کی وجہ سے یہ سنت نہیں چھوڑی جاسکتی عام لوگ بیٹھیں یا نہ تم خطبہ بعدمیں ہی رکھو۔اس سے دومسئلےمعلوم ہوئے:ایک یہ کہ حضرت عثمان یا امیرمعاویہ نے خطبہ ہرگز پہلے نہ پڑھا ورنہ ابوسعیدخدری یہ گفتگو نہ کرتے۔دوسرے یہ کہ زمانہ کی مصلحتوں کی وجہ سے سنتیں نہیں چھوڑی جاسکتیں۔اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جو آج کہہ رہے ہیں کہ خطبہ،اذان،تکبیر بلکہ نمازبھی اردو زبان میں پڑھوکیونکہ لوگ عربی نہیں سمجھتے۔